Book Name:حَسْبُنَا اللہ (یعنی ہمیں اللہ کافِی ہے)
خادِم نے حکم پر عمل کیا، نمازِ عشا کے بعد انہیں کھانے میں مچھلی دی گئی، جب وہ کھا چکے تو خادِم فورًا باہَر سے دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
مچھلی تو پانی کی دِیوانی ہے، رہتی ہی پانی میں ہے، اسے پکا کر کھا لیں تو بھی پانی مانگتی ہے، چنانچہ ان صاحِب کو سخت پیاس لگی مگر پانی تو تھا ہی نہیں، دروازہ باہَر سے بند تھا، خُود جا کر بھی نہیں پی سکتے، اب یہ اندر سے چِلّاتے ہیں کہ مجھے پانی دیا جائے مگر وہاں تھا کون جو سُنتا! انہیں پانی نہ ملنا تھا، نہ ملا، رات جیسے کٹنی تھی، کٹی۔ صبح فجر کے وقت خادِم نے کمرہ کھولا، جیسے ہی دروازہ کھلا، یہ صاحِب پانی کی طرف بھاگے، جتنا پیا گیا، خُوب پیا۔ جان میں جان آئی، اب نمازِ فجر ادا کی۔ نماز کے بعد شاہ آلِ مُحَمَّد رحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پوچھا: خیریت ہے؟ عرض کیا: حضور! رات تو خادِموں نے مار ہی ڈالا تھا۔ ایسی گرمی میں ایک تو مجھے مچھلی کھلا دی، پانی کا ایک قطرہ تک نہ دِیا، اوپَر سے کمرے کا دروازہ بھی باہَر سے بند کر دیا۔ فرمایا: پِھر رات کیسی گزری؟ عرض کیا: جب تک جاگتا رہا پانی کا خیال! جب سویا تو خواب میں بھی پانی کے سِوا اور کچھ نہ دیکھا۔ شاہ آلِ مُحَمَّد رحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: طلبِ صادِق (یعنی سچی طلب) اسی کا نام ہے۔ جس مقصد تک نہ پہنچنے کی آپ شکایت (Complaint)کر رہے تھے (کہ اتنے سال سے مقصود حاصِل نہیں ہوا)، کبھی اس کے لئے ایسی طلب بھی کی تھی؟ اب وہ صاحِب اپنی ناکامی کی وجہ سمجھ چکے تھے، چنانچہ اب سے سچی طلب کے ساتھ مجاہدات شروع کئے، آخِر اللہ پاک کا فضل ہوا اور انہیں اپنے مقصد میں کامیابی مل گئی۔([1])
تجھ کو گر رُتبۂ عالی کی طلب ہے بھائی! غور سے سُن! تجھے ہستی کو مٹانا ہو گا