Book Name:حَسْبُنَا اللہ (یعنی ہمیں اللہ کافِی ہے)
وضاحت:اے پیارے آقا و مولی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! ہمارا پروردگار تو بس وہی اکیلا ربُّ الْعَالمِیْن ہے جس نے آپ کو سرا پا کرم اور ہمہ تن بخشش و عطا بنایا ہے اور اس وَحْدَہٗ لَا شَرِیک نے ہمیں *کرم کی خیرات*گناہوں کی بخشش *اور شفاعت کی بھیک مانگنے کے لئے آپ کی بارگاہ کا راستہ دکھایا ہے۔اور آپ کو یہ شان عطا کی ہے کہ دوجہاں کے خزانے عطا کر کے یہ ارشاد فرمایا:وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ( تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو )اے ہم غریبوں کے لئے آسرا اور سہاراپیدا کرنے والے ربّ !حمد کے لائق تو صرف تیری ہی ذات ہے۔
آخر نبیوں، وَلیَّوں سے کیوں مانگیں؟
بعض لوگ یہ سُوال کیا کرتے ہیں کہ چلو مان لیا! اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہِ علیہم مددگار ہیں مگر جب اللہ پاک خُود ہماری سنتا بھی ہے، ہماری مدد بھی فرماتا ہے، پِھر آخر ہم بندوں سے مدد مانگیں ہی کیوں؟ صِرْف اللہ پاک ہی سے مدد مانگا کریں۔
بڑا اَہَم سوال ہے،بہت سارے خوش عقیدہ لوگ بھی اس شیطانی وسوسے کا شِکار ہو سکتے ہیں۔اس کا جواب کیا ہے؟ آئیے! ایک حدیثِ پاک سنتے ہیں۔حدیثِ حَسَن ہے یعنی سندکے اِعتبار سے اس حدیث میں کلام نہیں، بہت سارے محدِّثِین نے اس حدیث کو ذِکْر کیا اور بڑے بڑے عُلَما و مُحَدِّثِین نے خوداس حدیثِ پاک کا تَجْرِبَہ بھی کیا ہے، کیا حدیث شریف ہے؟ سنیئے!
بدری صحابی حضرب عُتْبَہ بِنْ غَزْوَان رَضِیَ اللہُ عنہہیں:اللہ پاک کے مَحْبُوب نبی، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو اور ہو بھی