Book Name:حَسْبُنَا اللہ (یعنی ہمیں اللہ کافِی ہے)
حدیثِ پاک میں ہے:اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔([1])
اے عاشقانِ رسول ! اچھی اچھی نیّتوں سے عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ آئیے! بیان سننے سے پہلے کچھ اچھی اچھی نیتیں کر لیتے ہیں۔*رضائے الٰہی کیلئے بیان سُنوں گا *بااَدَب بیٹھوں گا* خوب تَوَجُّہ سے بیان سُنوں گا*جو سُنوں گا، اسے یاد رکھنے، خُود عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
غزوۂ اُحُد کے وقت کی بات ہے، حضرت اَبُو سفیان رَضِیَ اللہُ عنہجو عظیم صحابئ رسول ہیں، آپ نے فتح مکّہ کے موقع پر اسلام قبول کیا، غزوۂ اُحد کے وقت آپ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، غیر مسلموں کی صَفْ میں تھے، چنانچہ غزوۂ اُحُد کے وقت ابوسفیان نے رسولِ ذیشان، مکی مدنی سلطان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کو پُکار کر کہا:اگلے سال بدر کے میدان میں ہماری اور آپ کی جنگ ہو گی۔آخری نبی، مکی مَدَنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے اس اِعْلانِ جنگ کو قبول فرما لیا۔ اس کے بعد ابوسفیان اور ان کا لشکر مکّے چلا گیا، پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کو ساتھ لے کر مدینے شریف واپس تشریف لے آئے۔
کرتے کراتے سال گزر گیا۔ اِدھر ابوسفیان اور اَہْلِ مکّہ بھی جنگ کی تیاریوں میں تھے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمبھی تیّار تھے۔ جب وعدے کا وقت آ گیا تو خُدا کا