Book Name:حَسْبُنَا اللہ (یعنی ہمیں اللہ کافِی ہے)
کرتے ہیں، اللہ پاک سے شکوے کرتے ہیں *اور ایمان کی کمزوری دیکھئے! لوگ بدشگونی لیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مُعَاشرے میں بدشگونی بہت عام ہے *صبح صبح کسی اندھے، لنگڑے یا معذور کو دیکھ لیا تو ذہن بن جاتا ہے کہ آج کا دِن اچھا نہیں گزرے گا*کوئی کام کرنے لگے، کسی نے ٹوک دیا تو کہتے ہیں: تیری کالی زبان ہے، اب یہ کام نہیں ہو سکے گا*ایمبولینس (Ambulance)کی آواز سُن لیں تو بدشگونی لیتے ہیں *کام پر نکلے، سامنے سے کالی بلّی گزر گئی تو یقین کر لیا جاتا ہے کہ کوئی نقصان ہو گا، لہٰذا کام سے رُک جاتے ہیں*آنکھ پھڑکے تو ذِہن بن جاتا ہے کہ کوئی مصیبت آئے گی*کبھی نمبروں سے بدشگونی لی جاتی ہے، مثلاً 13 نمبر کو منحوس سمجھا جاتا ہے*کبھی دِنوں سے بدشگونی لی جاتی ہے *بعض مہینوں کو لوگ مَنْحُوس سمجھتے ہیں۔
غرض یہ ایمان کی کمزوری (weakness)ہے، اللہ پاک پر بھروسا نہیں ہوتا تو اس طرح کے اُوٹ پٹانگ خیال جمتے ہیں، ورنہ اس دُنیا میں منحوس کچھ نہیں ہے، صِرْف گُنَاہ مَنْحُوس ہیں، گُنَاہوں کے ذرائع مَنْحُوس ہیں، صِرْف وہ لمحہ مَنْحُوس ہے، جس لمحے انسان گُنَاہ میں مبتلا ہوتا ہے، اگر ہمارے کاموں میں کچھ رُکاوٹ آتی ہے تو گُنَاہوں کی نحوست سے آتی ہے، اگر ہم ناکامیوں کا مُنہ دیکھتے ہیں تو گُنَاہوں کے سبب دیکھتے ہیں، ورنہ بدشگونی محض ایک غلط خیال ہے، وہم کے سِوا کچھ نہیں ہے۔
بدشگونی کی بُرائی پر 2 احادیثِ کریمہ
*ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ وَ لَا تُطَیَّرُ لَہٗ جس نے بدشگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے