Book Name:حَسْبُنَا اللہ (یعنی ہمیں اللہ کافِی ہے)
رکھتے ہیں جو اللہ کی قُدْرت پہ بھروسا
دُنیا میں کسی کی وہ خوشامد نہیں کرتے
حضرت جِزْئِیْل رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنا مُعاملہ اللہ پاک کے سپرد کیا تو اللہ پاک نے فِرْعون سے آپ کی حِفَاظت فرمائی۔ مُفَسِّرِیْنِ کرام فرماتے ہیں: فِرْعَون کو، اس کی قوم کو ایمان کی دعوت دینے کے بعد حضرت جِزْئِیْل رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرعون کے دربار سے چلے گئے اورایک پہاڑ پرجا کر اللہ پاک کی عِبَادت میں مَصْرُوف ہوئے، فِرْعَون نے ان کے پیچھے سپاہی بھیجے کہ جاؤ! انہیں پکڑ کر لاؤ۔ جب سپاہی اس پہاڑ پرپہنچے تو دیکھا کہ حضرت جِزْئِیْل رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ عِبَادت میں مَصْرُوف ہیں اور جنگلی جانور (مثلاً شیر، چیتا وغیرہ) ان کے اردگرد پہرا دے رہے ہیں، یہ منظر دیکھ کر فرعونی سپاہیوں کے رَونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ ڈر کر واپس بھاگ گئے۔([1])
جسے تُو پکڑ لے اُس کو چُھڑا سکتا نہیں کوئی اُسے پھر کون پکڑے جس کو مولیٰ تُو رِہا کردے
وضاحت:یا اللہ پاک ! تیری یہ شان ہے جس کی تو پکڑ فرمالے، کوئی اس کو بچا نہیں سکتا اور جسے تو اپنی جناب سے بخشش عطا کر دے پھر اُسے کون پکڑ سکتا ہے...؟
اس کے بعد فِرْعون اور اس کی قوم پر عذاب آیا اورانہیں دریا میں غرق کر دیا گیا۔
مَشِیَّت کس کے بَس میں، قَضَا سے کون لڑتا ہے یہاں جو سَر اُٹھاتا ہے، اسے جھکنا ہی پڑتا ہے
وضاحت:یعنی اللہ پاک کی مرضِی اور اس کی تقدیر کس کے بَس میں ہے، کون تقدیر سے لڑ سکتا ہے، رَبِّ قہار کے حُضُور جو سَر اُٹھاتا ہے، تکبّر کرتا ہے، اسے مُنہ کے بَل گرنا ہی پڑتا ہے۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد