Book Name:Mein Nisaar Tere Kalam Par
ہماری تَوَجُّہ ہی نہیں ہوتی، بس یونہی بولنے کے طور پر بولتے ہیں، جیسے ماؤں کی عادت ہوتی ہے، کہتی ہیں: تیرا سَتْیَا نَاس ہو۔ تیرا بیڑا تَر جائے۔ اب سَتْیَا کیا ہوتا ہے؟ ناس کسے کہتے ہیں؟ یہ خُود بولنے والوں کو بھی مَعْلُوم نہیں ہوتا، بیڑا تَرنا کسے کہتے ہیں، شاید اس پر توجہ نہیں ہوتی، بس بولنے کے طور پر بول دیتے ہیں۔
ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی شان مبارک ہے کہ صِرْف تکیہ کلام کے طَور پر بھی جو ارشاد فرماتے ہیں، وہ بھی حق ہو جاتا ہے۔ فَقِیہُ الْعَصْر (یعنی زمانے کے بہت بڑے عالِم) مفتی امین صاحِب رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں: ایک عالِم صاحِب تھے، وہ بیمار ہو گئے، بہت عِلاج کروایا مگر ...!!
دَرْد بڑھتا گیا، جُوں جُوں دَوا کی
اُن کا مرض بڑھتا ہی گیا، بڑھتا ہی گیا، یہاں تک کہ بستر کے ساتھ لگ گئے۔ ایک دِن ان کی قسمت جاگی، سَوئے ہوئے تھے، خواب میں بیمار دِلوں کے چین، نانائے حسنین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم تشریف لے آئے، عُلَما تو عُلَما ہوتے ہیں، کوئی بھی حالت ہو، عِلْم کے پیاسے ہی رہتے ہیں، ان عالِم صاحِب کے خواب میں حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم تشریف لائے تو انہوں نے خواب میں بھی عِلْم ہی کی بات پوچھی، کسی حدیث شریف سے متعلق عرض کیا: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! کیا یہ حدیث یُوں ہے (جیسے میں عرض کر رہا ہوں)؟
اب ایسے موقع پر ہم عام طور پر کہہ دیا کرتے ہیں: اللہ تیرا بھلا کرے، یہ بات یُوں نہیں بلکہ یُوں ہے۔ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے خواب میں تشریف لا کر ایک سُوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: لَا ...!! عَافَاکَ اللہُ! اللہ پاک تمہیں عافیت بخشے، یہ حدیث یُوں نہیں ہے۔
جب اُن عالِم صاحب کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتے ہیں، وہ بیماری جو لاکھ عِلاج کے باوُجُود