Book Name:Mein Nisaar Tere Kalam Par
ہے، زمین پر بہتا ہے، زمین کے نیچے چلا جاتا ہے تو اس میں اَور چیزیں بھی شامِل ہو جاتی ہیں، مثلاً سَوْڈِیَم کَلَوْرَائِیْڈ، میگنیشیم، کیلشیم کَا رْبُونیٹ، پَوٹَاشیم وغیرہ معدنیات جب پانی میں ملتی ہیں تو پانی کا ذائقہ بدل جاتا ہے، پانی نمکین یا کڑوا ہو جاتا ہے، پِیا نہیں جاتا، پھر اِن معدنیات کو نکالنے کے لئے ہمارے ہاں لاکھوں کے پلانٹس لگائے جاتے ہیں، کئی قسم کے کیمکلز ڈال کر، لاکھوں روپیہ خرچ کر کے، کتنا سارا ٹائِم لگانے کے بعد پانی میں سے اضافی معدنیات نکالے جاتے ہیں، پِھر بھی پانی کا وہ اَصْل ذائقہ واپس نہیں آتا۔ سوچنے کی بات ہے! *کوئی پلانٹ نہیں لگایا گیا *پانی کو چھانا بھی نہیں* اُس میں لعاب (یعنی تُھوک مبارَک) بھی نہیں ڈالا گیا *بس آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے نام ہی بدلا ہے، اتنا کہنے ہی سے پانی میں شامِل تمام اِضافی معدنیات نکل بھی گئیں، پانی نکھر کر صاف بھی ہو گیا اور صاف بھی ایسا ہوا کہ اس کی حقیقت ہی بدل گئی، پہلے کڑوا تھا، اب میٹھا ہو گیا۔
جس سے کَھاری کُنوئیں شیرۂ جَاں بنے اُس زُلَالِ حَلَاوَت پہ لاکھوں سلام([1])
وضاحت:پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے بچے ہوئے پانی سے نمکین پانی کے کنوئیں میٹھے ہو جاتے ہیں، جو آپ کے لبوں کو چھو گیا ؛اس میٹھے ، خوش ذائقہ ، نتھرے ہوئے پانی پر لاکھوں سلام ہوں۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! کچھ جملے ہوتے ہیں، جنہیں ہم تکیہ کلام کہتے ہیں۔ یعنی یہ ایسے جملے ہوتے ہیں کہ بولتے ہوئے ہم ان کا معنیٰ مُراد ہی نہیں لیتے، اِن کے معنیٰ کی طرف