Book Name:Mein Nisaar Tere Kalam Par
پیارے اسلامی بھائیو! یہاں ہمارے لئے بھی ایک سبق ہے۔ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی کیا شان ہے؟
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) (پارہ:27، سورۂ نَجْم :3 )
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے۔
ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نفس کی خواہش سے کَلام نہیں فرماتے۔ اب غور فرمائیے! ہمارا حَال کیا ہے؟ شاید ہماری 100 میں سے 99 باتیں خواہشِ نفس ہی کی وجہ سے ہوتی ہیں *دِل چاہا باتیں کروں، کرنا شروع ہو گئے *دِل چاہا خُوش گپیاں ہَوں، خوش گپیاں شروع ہو گئیں *نفس چاہتا ہے، ہم اپنے مُنہ میاں مٹھو بننا یعنی اپنے مُنہ، اپنی ہی تعریفیں کرنا شروع کر دیتے ہیں *اپنی پوشِیدہ نیکیاں ظاہِر کرنا، اِن پر اپنی بڑائیاں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں *نفس چاہتا ہے تو لوگ غیبتیں بھی کرتے ہیں *چغلیاں بھی کھاتے ہیں*جھوٹ بھی بولتے ہیں *مذاق مسخری کی محفلیں بھی سجتی ہیں *ایک دوسرے پر جملے بھی کَسے جاتے ہیں *فضول باتیں بھی ہوتی ہیں *زبان کے ذریعے گُنَاہوں کا انبار بھی لگایا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم پر وَحْی نہیں آئے گی، وَحْی کا دروازہ بند ہے، پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم آخری نبی بن کر تشریف لا چکے ہیں، اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، کسی پر وَحْی نہیں اُترے گی، یعنی اگرچہ ہم وَحْی کے ذریعے کلام نہیں کر سکتے مگر رَبّ کی رضا کے لئے تو کر سکتے ہیں...!! اللہ پاک جن باتوں سے ناراض ہوتا ہے، ان باتوں سے تو بچ سکتے ہیں *جن باتوں میں اللہ پاک کی رضا ملتی ہے، وہ باتیں تو ہم کر سکتے ہیں۔ مگر