Book Name:Mein Nisaar Tere Kalam Par
ہَوا اُٹھتی ہے، پِھر گلے اور مُنہ کے مختلف حصّوں سے ٹکرا کر لفظوں کی صُورت اختیار کرتی ہے ۔ یعنی یہ جو ہمارے الفاظ ہیں، یہ سینے سے اُٹھنے والی اس ہَوا سے بنتے ہیں، لفظوں کا جو فرق ہے، یہ مَخَارِج کے ذریعے ہوتا ہے*اگر وہ ہَوَا حلق کے نیچے والے حصّے سے ٹکرا کر نکلے تو ہمزہ بنتا ہے*حلق کے درمیان والے حصّے سے ٹکرا کر نکلے تو عین بنتا ہے*زبان کی جڑ اور تالُو کے سخت حصّے سے ٹکرا کر نکلے تو کاف بنتا ہے*دونوں ہونٹوں کے تَر سے حصّے سے ٹکرا کر نکلے تو باء بنتا ہے*غرض کہ اَصْل وہ سینے سے اُٹھنے والی ہوا ہے، اُسی سے الفاظ بنتے ہیں، اُسی سے جملے بنتے ہیں، اُسی سے کلام بنتا ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے، نبی اکرم، نُورِ مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے سینہ مبارَک سے اُٹھنے والی وہ مقدّس ہَوَا، جب زَبان مُبارَک کے ذریعے کلام بن کر نکلتی ہے تو اُس ہَوا میں یہ تاثیر آجاتی ہے کہ مُردَے تو مُردَے رہے، بالکل بےجان چیزیں، جن میں کبھی جان تھی ہی نہیں، اُن میں بھی جان پڑ جاتی ہے، وہ بھی اس کلام مبارک کو سُن کر جھومنے لگ جاتی ہیں۔
اب سوچئے! جب سینہ مبارَک سے اُٹھنے والی اس ہَوا کی یہ تاثِیر ہے تو پِھر *مبارَک ہاتھوں کی تاثِیر کیا ہو گی*پیاری پیاری، سُہانی سُہانی آنکھوں کی شان کیا ہو گی*کانوں کی شان کیا ہو گی*سراپائے مصطفےٰ کی تاثِیر کیا ہو گی....؟ مولانا حَسَن رضا خان صاحِب رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کیا خُوب کہا ہے :
سَر سے پَا تک ہر ادا ہے لاجواب خوبرُویَوں میں نہیں تیرا جواب
حُسْن ہے بےمِثل، صُورت لاجواب میں فِدا تُم آپ ہو اپنا جواب
تم سے اُس بیمار کو صحت مِلے جس کو دے دیں حضرتِ عیسیٰ جواب([1])