Book Name:Be Rozgari Ke Asbaab
دِلائی جاتی ہے *جو جوتے سِلائی کرتا ہے، اسے کم تَر سمجھ کر، طنزیہ انداز میں موچی کہا جاتا ہے *جو بال بناتا ہے، اسے طنزیہ لہجے میں نائی کہہ کر شرم دِلاتے ہیں، یہ بہت غلط بات ہے، بہت ہی غلط بات ہے۔ طعنے دینا دِل آزاری کا سبب ہے اور دِل آزاری حرام اور جہنّم میں لے جانے والاکام ہے۔ اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
وَ لَا تَلْمِزُوْۤا (پارہ:26، سورۂ حجرات:11)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو
یعنی زبان یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا۔([1])
حضرت عبد اللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے: ایک مرتبہ ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا، عرض کیا: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! میرے پیشے کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ فرمایا: کیا کام کرتے ہو؟ عرض کیا: میں کپڑے بُنتا ہوں (اُردُو میں جسے جَولاہا کہا جاتا ہے)۔ پیارے مَحْبُوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: تمہارا پیشہ حضرت آدم عَلَیْہ ِالسَّلام والا ہے، سب سے پہلے جنہوں نے کپڑا بُنا وہ حضرت آدم عَلَیْہ ِالسَّلام ہیں، بےشک تمہارا پیشہ وہ ہے، جس کی ضرورت زِندوں کے ساتھ ساتھ مُردَوں کو بھی ہوتی ہے (کہ انہیں کفن پہنایا جاتا ہے)۔ جو تمہیں (تمہارے پیشے کے سبب طعنے دے کر) تکلیف پہنچاتا ہے،