Book Name:Siddique e Akbar Ki Jan Nisariyan
ٹھہرئیے! میں غار کے اندر جا کر صفائی وغیرہ کر لُوں، اندر تشریف لے گئے، غار کی صفائی کی، اپنے تَن کے کپڑے پھاڑ کر سُوراخ بند کئے تاکہ کوئی جانور وغیرہ نقصان نہ دے، جب اطمینان ہو گیا کہ غار مَحْفُوظ ہے، اب پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کو اندر آنے کی دعوت پیش کی، پِھر وہ عشق بھرا واقعہ پیش آیا...!!
اللہُ اکبر! اس غار میں دو سوراخ تھے، جو بند نہیں ہو سکے تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایڑیاں ان سُوراخوں پر رکھ کر بیٹھ گئے۔ اب حضرت صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہیں، جانِ عالَم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی جھولی مبارک میں سَر رکھا اور آنکھیں بند فرما لیں۔ ان سوراخوں میں ایک سانپ تھا، اس نے آپ کی ایڑی پر ڈس دیا ۔ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کے آنسو نکلے، چہرۂ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّمپر پڑے، مَحْبُوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّمنے آنکھ مبارَک کھولی، واقعہ پوچھا اور اپنا لعاب مبارک حضرت صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کی ایڑی پر لگا دیا، جس سے زہر کا اَثَر ختم ہو گیا۔ ([1])
صدیق بلکہ غار میں جان اُس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان! فُرُوضِ غُرَر کی ہے
ہاں تُو نے اِن کو جان اُنہیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابِت ہوا کہ جملہ فرائِض فُرُوع ہیں
اَصْلُ الْاُصُوْل بندگی اُس تَاجْوَرْ کی ہے([2])