Book Name:Qaum e Samood Kyun Halak Hui
بھلائی کا تالا ہیں، پس خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس کے ہاتھ پر اللہ پاک نے بھلائی کی چابیاں رکھ دی ہیں اور ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس کے ہاتھ پر اللہ پاک نے بُرائی کی چابیاں رکھ دی ہیں۔([1])
اس حدیثِ پاک میں 2 طرح کے لوگوں کا ذِکْر ہے (1): وہ شخص جو بھلائی کی چابی اور بُرائی کا تالا ہے۔ اس شخص کی یہ شان ہے کہ اسے دیکھ کر لوگوں کو نیکی یاد آتی ہے، یہ جہاں جاتا ہے، نیکیوں کی دُھوم ڈال دیتا ہے، بولتا ہے تو اس کے مُنہ سے نیک باتیں نکلتی ہیں، سوچتا ہے تو نیکی کی بات سوچتا ہے، اس کا باطِن بھی نیکی پر ہوتا ہے یہاں تک کہ جو بندہ اس کی صحبت میں بیٹھ جائے، وہ بھی نیک بَن جاتا ہے (2):اور دوسرا وہ شخص ہے جو بُرائی کی چابی اور بھلائی کا تالا ہے یعنی یہ پہلے والے کے بالکل اُلٹ ہے، یہ جہاں جاتا ہے، بُرائی کا بیج بوتا ہے، اس کی زبان سے بُرائی نکلتی ہے، اس کے ہاتھ سے بُرائی ظاہِر ہوتی ہے، اس کی سوچ بھی بُرائی پر مبنی ہوتی ہے، غرض یہ خود بھی بُرا ہے اور دوسروں تک بھی بُرائی ہی پہنچاتا ہے۔([2])
پیارے اسلامی بھائیو! یہ 2 طرح کے لوگ ہیں، جو بھلائی کی چابی ہے (یعنی نیکی کرنے اور نیکیاں پھیلانے والا ہے)، اس کے لئے خوشخبری ہے اور جو بُرائی کی چابی ہے (یعنی خُود بھی بُرا ہے اور بُرائی ہی پھیلایا کرتا ہے، اس کے عمل سے، کردار سے، باتوں سے دوسروں کو بُرائی کی ترغیب ملتی ہے)، اس کے لئے ہلاکت ہے۔ اب ہم غور کر لیں کہ ہمارا شُمار کن میں ہوتا ہے، ہمیں دیکھ کر لوگ بُرائی سیکھتے ہیں یا ہمارے ذریعے بھلائی پھیلتی ہے؟ اگر ہم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہیں، اللہ پاک کے حُضُور، اپنے گھر میں، معاشرے میں اپنی کچھ وقعت بناناچاہتے