احکامِ تجارت

* مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

قرآن پاک پڑھانے کی اُجرت لینا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص انٹرنیٹ پر آن لائن قرآن پاک پڑھائے اور اس پر اُجرت بھی لے تو کیا یہ جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : جی ہاں!قرآن پاک پڑھانے کی اُجرت لینا ، جائز و مباح ہے ، خواہ انٹر نیٹ پر پڑھایا جائے یا کسی اور ذریعے سے پڑھایا جائے ، کیونکہ متأخرین علمائے کرام نے دینی ضرورت کے پیشِ نظر تعلیمِ قرآن ، امامت وغیرہ امورِ دینیہ کی خدمت سرانجام دینے پر اُجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے۔

البتہ اجارے کی بنیادی شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے مثلاً وقت طے ہو ، معاوضہ طے ہو اور اجارہ درست ہونے کی دیگر ضروری شرائط پائی جانی چاہییں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

گیم زون کا کام کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کوئی شخص گیم زون(Game zone) کھولنا چاہتا ہے جس میں لوگ آکرکمپیوٹر گیمز کھیلیں گے اورجتنی دیر بیٹھیں گے اس کے پیسے دیں گے۔ کیا یہ کمائی جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : گیم زون سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز نہیں کیونکہ یہ لہو و لعب ہے اور ضروری نہیں کہ معتبر دنیاوی منفعت کے لئے ہی لوگ اسے استعمال کرتے ہوں پھر ایسی چیزوں میں میوزک اور غیر شرعی امور بھی لازم ہوتے ہیں لہٰذا ان کے لہو و لعب ہونے میں شک نہیں اور لہوو لعب کی اُجرت جائز نہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے :

(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ) ترجمۂ کنزُ الایمان : اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں بے سمجھے۔ (پ21 ، لقمان : 6)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں : “ ہر کھیل اور عبث فعل جس میں نہ کوئی غرضِ دین نہ کوئی منفعتِ جائزہ دنیوی ہو ، سب مکروہ و بے جا ہیں ، کوئی کم کوئی زیادہ۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 24 / 78)

بحر الرائق میں ہے : “ ولا یجوز الاجارۃ علی شیئ من الغناء واللھوترجمہ : گانے اور لہو (یعنی کھیل اور فضول کاموں) پر اجارہ جائز نہیں۔ (بحر الرائق ، 8 / 36)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کسی کو سفارش کرکے نوکری دلوانا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی کو سفا رش کر کے نوکری دلوانا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اگر وہ اس نوکری کا اہل ہے اور اس کی سفارش کی تو یہ صورت جائز ہے اور اگر ایسی سفارش کی کہ اس سے کسی حقدار کا حق ما را گیا یا کسی نا اہل کو سفارش کر کے نوکری دلوا دی تو یہ جائز نہیں۔ نیز یہ واضح رہے کہ نوکری لگوانے کے لئے رشوت کا لین دین ہرگزجائز نہیں۔

حدیثِ پاک میں ہے : “ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراشی والمرتشیترجمہ : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے رشوت دینے والے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ (ترمذی ، 3 / 66 ، حدیث : 1342)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن  سفارش کرنے کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “ نیک بات میں کسی کی سفارش کرنا مثلاً سفارش کرکے مظلوم کو اس کا حق دلادینا یا کسی مسلمان کو ایذا سے بچالینا یا کسی محتاج کی مدد کرادینا شفاعتِ حسنہ ہے ، ایسی شفاعت کرنے والا اجر پائے گا اگرچہ اس کی شفاعت کارگر نہ ہو ، اور بری بات کے لئے سفارش کرکے کوئی گناہ کرادینا شفاعتِ سیئہ ہے اس کے فاعل پر اس کا وبال ہے اگر چہ نہ مانی جائے۔ (فتاویٰ رضویہ ، 23 / 407)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

غیر مسلم کو مکان کرایہ پر دینا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسلمان اپنا مکان کسی غیر مسلم کو کرایہ پر رہنے کے لئے دے سکتا ہے یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : غیر مسلم کو رہائش کے لئے مکان کرائے پر دینے میں

 کوئی حرج نہیں اور اس کے ناجائز افعال میں مسلمان کا کوئی عمل دخل نہیں کیونکہ مسلمان نے فقط رہائش کے لئے مکان کرائے پر دیا ہے اور رہائش کے لئے مکان کرائے پر دینا ، جائز ہے۔

صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں : “ مسلمان نے کسی کافرکو رہنے کے لئے مکان کرایہ پر دیا یہ اجارہ جائز ہے ، کوئی حرج نہیں۔ “ (بہار شریعت ، 3 / 145)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھانا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدنے بکر کو کچھ لاکھ روپے قرض دے کر اس کا گھر تین سال کے لئے رہن پر لے لیا تین سال کے بعد بکر زید کی رقم لوٹا کر اپنا گھر واپس لے لے گا۔ اورتین سال تک اس مکان کا کرایہ زید حاصل کرے گا۔ آیا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : سوال میں مذکورہ صورت ناجائز و حرام ہے اور یہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن  فرماتے ہیں : “ رہن میں کسی طرح کے نفع کی شرط بلا شبہ حرام اور خالص سود ہے بلکہ اِن دیار میں مرتہن کا مرہون سے انتفاع بلاشرط بھی حقیقۃً بحکمِ عرف انتفاع بالشرط ربائے محض ہے۔ قال الشامی قال ط قلت والغالب من احوال الناس انھم انما یریدون عند الدفع الانتفاع و لولاہ لما اعطاہ الدراھم و ھذا بمنزلۃ الشرط لان المعروف کالمشروط وھو مما یعین المنع ترجمہ : علامہ شامی فرماتے ہیں کہ طحاوی نے فرمایا میں کہتا ہوں کہ غالب حال لوگوں کا یہ ہے کہ وہ رہن سے نفع کا ارادہ رکھتے ہیں اگر یہ توقع نہ ہو تو قرض ہی نہ دیں اور یہ بمنزلہ شرط کے ہے کیونکہ معروف مشروط کے حکم میں ہوتا ہے۔ یہ بات عدمِ جواز کو متعین کرتی ہے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 25 / 57)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہل سنّت ، دار الافتاء اہلِ سنّت نور العرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code