مدنی مذاکرے کے سوال جواب
ماہنامہ ستمبر 2021
(1)اِنسان کے لئے کون سی چیز منحوس ہوتی ہے؟
سُوال : کیا مکان ، دکان ، گاڑی ، بہو یا بیوی کو منحوس کہا جا سکتا ہے کہ جب سے یہ آئی ہے نقصان ہی ہو رہا ہے؟
جواب : یہ سب لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں ، نہ کوئی چیز منحوس ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دِن منحوس ہوتا ہے ، سارے دِن اللہ پاک کے ہیں۔ البتہ کسی کے لئے وہ گھڑی ضرور منحوس ہے جس میں وہ گناہ کر رہا ہے۔
(تفسیر روح البیان ، پ10 ، التوبۃ ، تحت الآیۃ : 37 ، 3 / 428 ماخوذاً-مدنی مذاکرہ ، 20صفر المظفر 1441ھ)
(2)ماحیِ بدعت کا مطلب
سُوال : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ ماحیِ بدعت تھے ، اِس کا کیا مطلب ہے؟
جواب : ماحیِ بدعت آپ کا لقب ہے ، اِس کا مطلب ہے : بدعت کو مٹانے اور سنَّتوں کو زندہ کرنے والے۔ سنَّتوں کی جگہ جو بدعتیں اور گمراہیاں رائج ہو گئی تھیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کو مٹایا ہے اسی لئے آپ کو “ ماحیِ بدعت “ کہا جاتا ہے۔ (مدنی مذاکرہ ، 20صفر المظفر 1441ھ)
(3)ماہِ صَفَر میں سورۂ مُزَّمّل پڑھنا کیسا؟
سُوال : کیا صَفَر کے مہینے میں سورۂ مُزَّمّل پڑھنا ضروری ہے؟
جواب : سُورۂ مُزَّمِّل پڑھنا کارِ ثواب ہے ، چاہے صَفَر میں پڑھیں یا کسی اور مہینے میں ، یوں ہی کسی بھی دِن یا رات میں پڑھیں ، جائز ہے۔ البتہ صَفَر میں اِس لئے پڑھنا کہ اگر نہیں پڑھی تو بلائیں نازِل ہوجائیں گی یا بلائیں چِمَٹ جائیں گی یا مصیبتیں آئیں گی تو یہ تصوُّر غلط ہے۔ سورۂ مُزَّمِّل صِرف اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے پڑھنی چاہئے اور صرف صَفَر میں نہیں ، اللہ توفیق دے تو روزانہ ہی پڑھ لینی چاہئے۔ (مدنی مذاکرہ ، 27صفر المظفر 1441ھ)
(4)اعلیٰ حضرت پر آنکھیں بند ہونے کا مطلب
سُوال : آپ کہتے ہیں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ پر ہماری آنکھیں بند ہیں اِس کا کیا مَطلب ہے؟
جواب : اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ پر آنکھیں بند ہونے کا مَطلب یہ نہیں کہ سر کی آنکھیں بند ہیں بلکہ اِس کا مَطلب یہ ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ پر کسی بھی قسم کی تنقید نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں ان کی بیان کردہ کسی بات کے بارے میں کوئی شُبہ ہوتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے مُعاملے میں آنکھیں بند کر نے میں ہی عافیت ہے ، اِس بارگاہ میں آنکھیں کھولیں گے تو ٹھوکر لگنے کا خَدشہ ہے۔ یاد رَکھئے!ہم اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ م کو اللہ پاک کا ولی مانتے ہیں نبی نہیں مانتے ، اللہ پاک کے بے شمار اَولیائے کِرام رحمۃُ اللہِ علیہ ہیں انہی میں سے ایک اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ بھی ہیں۔ وِلایت کا دَروازہ بند نہیں ہوا بلکہ نبوت کا دَروازہ بند ہوا ہے۔ اب کوئی بھی نیا نبی نہیں آسکتا۔ (مدنی مذاکرہ ، 25صفر المظفر 1440ھ)
(5)آپ اعلیٰ حضرت کی کِس خوبی سے مُتأثر ہوئے؟
سُوال : اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی ذات اگرچہ بہت ساری خوبیوں کا مَجموعہ ہے لیکن اعلیٰ حضرت کاعقیدت مند ہونے کے ناطے کیا آپ کو بھی ان تمام اچھی خوبیوں میں سے بعض زیادہ پُرکشش لگتی ہیں؟
جواب : میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی خوبیوں کو باہم تَرجیح دینے میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کیونکہ مجھے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی کسی خوبی میں کوئی کمزوری نظر نہیں آ رہی کہ جسے دیکھ کر میں دوسری خوبی کو اس پر تَرجیح دے سکوں۔ ساری ہی خوبیاں وزن دار ہیں۔ اللہ پاک کی محبت میں ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ عشقِ رَسُول کا وَصف دیکھو تو مِعراج کی بلندیوں پر ہے۔ قراٰنِ کریم کے فہم میں ان کا کوئی مِثل نہیں ، ان جیسا کوئی مُفَسِّر نہیں ، ان جیسا کوئی مُحَدِّث نہیں ، ان جیسا کوئی مُفتی نہیں ، ان جیسا کوئی علّامہ نہیں ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس سَمت آگئے ہیں سِکّے بٹھا دیئے ہیں۔ (مدنی مذاکرہ ، 25صفر المظفر 1440ھ)
(6)کیا میاں بیوی جنَّت میں یکجا ہوں گے؟
سُوال : کیا میاں بیوی دونوں جنَّت میں ایک ساتھ رہیں گے؟
جواب : اگر میاں بیوی کا خاتمہ اِیمان پر ہوا تو یہ دونوں جنَّت میں ساتھ رہیں گے۔ (التذکرۃ باحوال الموتی وامور الآخرۃ ، ص 462) اگر ان میں سے کسی کا مَعَاذَ اللہ اِیمان سَلامت نہ رہا تو دوزخ اس کا ٹھکانا ہوگا اور جو جنَّت میں جائے گا اس کا کسی دوسرے جنتی سے نکاح ہوجائے گا۔ جنَّت میں جانے والے کو اپنے دوسرے فریق کے بچھڑنے کا کوئی صَدمہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ جنَّت رنج و غم کا مقام نہیں۔ (مدنی مذاکرہ ، 21ذوالحجۃ الحرام 1439ھ)
(7)کیا اَمّی اَبو کا عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟
سُوال : کیا اولاد اپنے اَمّی اَبو کا عقیقہ کر سکتی ہے؟ نیز اگر کسی کا بچپن میں عقیقہ نہ ہوا ہو تو وہ خود اپنے ولیمے کے ساتھ اپنا عقیقہ کر سکتا ہے؟
جواب : اگر اَمّی اَبو کا عقیقہ نہیں ہوا تھا تو اب ان کی اِجازت سے کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح اگر کسی کا بچپن میں عقیقہ نہ ہوا ہو تو وہ اپنے ولیمے کے موقعے پر بھی اپنا عقیقہ کر سکتا ہے۔ (مدنی مذاکرہ ، 21ذوالحجۃ الحرام 1439ھ)
(8)ناراضی کی حالت میں والدین کا اِنتقال ہو جائے تو؟
سُوال : اگر اَولاد نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ روٹھنے والا اَنداز اِختیار کیا اور اِس دَوران ان کا اِنتقال ہو گیا تو اب اولاد کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب : ایسی صورت میں اَولاد وہی کام کرے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ اُن کی تجہیز و تکفین کا اِنتظام ، خوب دُعائے مَغْفِرَت و ایصالِ ثواب کرے۔ (مدنی مذاکرہ ، 12محرم الحرام 1440ھ)
(9)بَدعملی سے بیعت نہیں ٹوٹتی
سُوال : مُرید اگر نمازیں نہ پڑھے ، قراٰنِ پاک کی تلاوت اور دِیگر نیک کام نہ کرے تو کیا اُس کی بیعت ٹوٹ جاتی ہے؟
جواب : مُرید اگر نمازیں نہیں پڑھتا اور گناہوں میں پڑا ہوا ہے تو یہ بے عملی ہے اور بے عملی سے بیعت نہیں ٹوٹتی۔ مُرید کو چاہئے کہ وہ نمازیں پڑھے ، شریعت کے مُطابق زندگی گزارے اور بے عملی سے بچے۔ یاد رَکھئے! گناہوں سے عذابِ نار کی حقداری تو ہو گی مگر بیعت نہیں ٹوٹے گی۔ (مدنی مذاکرہ ، 12محرم الحرام 1440ھ)
Comments