فریاد
دنیاکےبجائےآخرت کازیادہ سوچئے
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ ستمبر 2021
ایک مولانا صاحب کسی سیٹھ کے پاس چندہ لینے گئے ، جب گفتگو ہوئی تو اس نے چندہ دینے سے منع کردیا ، اسی دوران سیٹھ صاحب نے اپنی جیب سے ایک ڈبیا نکالی جس میں ٹیبلیٹس تھیں ، ایک ٹیبلیٹ نکال کر اس نے پانی کے ساتھ کھالی ، مولانا صاحب نےکہا : سیٹھ صاحب! طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ آپ دوائی کھارہے ہیں ، سب خیر تو ہے؟ تو سیٹھ نے جواب دیا : ہاں مولانا! بس نیندنہیں آتی ، ٹینشن میں رہتا ہوں ، سکون حاصل کرنے کے لئے ٹیبلیٹ کھاتا ہوں۔ مولانا صاحب نے کہا کہ اللہ پاک آپ کو شفادے۔ چندہ نہ ملنے کے باوجود بھی سیٹھ صاحب کو دعا دے کر مولانا صاحب اس کی دکان سے باہر نکلے ، تو باہر سڑک پر کام ہورہا تھا ، بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئی تھیں جن کا اچھا خاصا شور تھا اور وقت بھی دوپہر کا تھا ، مگر مولانا صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اتنی گرمی کے باوجود چھوٹے سے درخت کے مختصر سے سائے میں ایک مزدور زمین پر گَتّا بچھائے مزے سے سورہا ہے ، مولانا صاحب یہ سوچنے لگے کہ کیا شان ہے میرے ربِّ کریم کی کہ “ اندر دکان میں سکون کی جگہ اور اے سی میں بیٹھنے کے باوجود سیٹھ صاحب سکون حاصل کرنے کے لئے گولیاں کھارہے ہیں جبکہ یہاں تیز گرمی اور مشینوں کے شور کے باوجود غریب مزدور کو سکون کی نیند میسر ہے۔ “
اے عاشقانِ رسول! جو شخص صرف دنیا بنانے اور اسے بہتر کرنے کی فکروں میں لگا ہوتا ہے وہ بظاہر کتنا ہی مالدار اور عیش و مستی میں سہی مگر عام طور پر اسے مختلف پریشانیوں نے بھی گھیرا ہوا ہوتا ہے ، ان میں سے کئی ایسی پریشانیاں بھی ہوتی ہیں جواس کی راتوں کی نیند اور دن کے سکون کو برباد کردیتی ہیں ، اس کا دل مختلف دنیاوی فکروں سے بھرا رہتاہے ، یہ کیسے ہوگا؟ وہ کیسے ہوگا؟ فلاں پلاننگ کچھ ادھوری رہ گئی وہ کیسے مکمل ہوگی؟فلاں منصوبہ کچھ باقی رہ گیاہے وہ اختتام تک کس طرح پہنچے گا؟ یوں ہی ایک دکان سے دو اور دو سے چار کرنے کی فکر ، کاروبار کو ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک پھیلانے کی فکر ، دوسرا کوئی مجھ سے آگےنہ بڑھے اس کی فکر ، اپنی واہ وا کروانے اور اس میں کمی نہ ہو اس کی فکر ، ہر نئے ماڈل کی گاڑی لینے اور ہر نیا آنے والا موبائل میرے ہاتھوں میں ہو اس کی فکر ، بچّے کچھ بڑے ہوجائیں ، میرا کاروبار سنبھال لیں اس کی فکر اور اس طرح کی نہ جانے کتنی فکروں نے دنیا دار آدمی کو گھیر کر رکھا ہوتا ہے۔ اس طرح کی بے جافکریں صرف امیر طبقے میں ہی نہیں بلکہ متوسط اور غریب طبقے میں بھی اپنی اپنی سوچ کے وسیع اور تنگ ہونے کے اعتبار سے پائی جاتی ہیں جن سے ان کی پریشانیاں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی ہی ہوں گی۔ دنیاوی سوچوں اور فکروں میں خود کو گُھلادینے والوں کو سمجھاتے ہوئے امیرِ اہلِ سنّت ، حضرت علّامہ مولانا الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ لکھتے ہیں : جو دُنیوی مستقبل کی بے جا فکروں میں پڑتے ، کُڑھتے اور خوامخواہ دل مَسُوستے رہتے ہیں ، ان کی بچّیاں ابھی تو کم سِن ہوتی ہیں پھر بھی ان کی شادیوں کے لئے سوچ سوچ کر پاگل ہوئے جاتے ہیں۔ فرض ہو جانے کے باوُجُود حج کی سعادت سے خود کو محروم رکھتے ہیں اور عُذر یہی ہو تا ہے کہ پہلے بچیوں کی شادی کے “ فرض “ سے سُبکدوش ہو جائیں ! حالانکہ زندَگی کا کوئی بھروسا نہیں ، بچیوں کی جوانی تک خود زندہ رہیں گے یا نہیں اس کی کسی کے پاس کوئی گارنٹی نہیں یا بچّیاں جوانی کی دِہلیز پر قدم رکھنے سے قبل ہی موت کے دروازے سے قَبر کی سیڑھیاں اُتر جائیں گی اِس کا کسی کو بھی پتا نہیں۔ آہ! کئی لوگ ہائے دُنیا! ہائے دُنیا! کرتے ہوئے دُنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ، مگر جیتے جی آخِرت کی طرف ان کی کوئی توجُّہ نہیں ہوتی۔ مسلمان کوہمّت اور خوش عقیدَگی سے کام لینا چاہئے۔ ہمیں خواہ مخواہ “ دو جان “ کی فِکر کھائے جاتی ہے حالانکہ دو جہان کو پالنے والاہمارا حامی و ناصر ہے۔ [1]
دنیا دار آدمی کو اتنی فکریں کیوں ہوتی ہیں ، وہ فکریں اس پر کیا اثر رکھتی ہیں ، نیز دنیا کے بجائے آخرت کی فکر انسان کو کیا کچھ دلاتی ہے اس کا جواب اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سے حاصل کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا :
(1)جو شخص (صرف) دنیا کی فکر میں رہتا ہے تو اللہ پاک اس کے معاملے کو پَراگندہ کر دیتا اور اس کی تنگ دستی کو اس کی آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے اور اسے دنیا سے صرف اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا ا س کے لئے (پہلے سے) لکھ دیا گیا ہے اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ پاک ا س کے معاملے کو اکٹھا کر دیتا اور ا س کی مالداری کو اس کے دل میں رکھ دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس خاک آلود ہو کر آتی ہے۔ [2]
(2)جس کی فکریں زیادہ ہو جاتی ہیں اس کا بدن سَقِیم یعنی بیمارپڑ جاتا ہے۔ [3]
(3)اللہ پاک کے کچھ فرشتوں کی اولادِ آدم کے رزق پر ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں ، اللہ پاک نے ان سے فرمایا ہوا ہے کہ جس بندے کو ایسا پاؤ کہ اس نے سب فکریں چھوڑ کر ایک (آخرت کی) فکر کو اپنالیا ہے تو آسمان و زمین ، پرندوں اور انسانوں کو اس کے رزق کا ضامن بنادو اور جس بندے کو رزق کی تلاش میں پاؤ اور (اس تلاشِ رزق میں) اس نے عدل و انصاف اور سچائی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے تو اس کے لئے اس کا رزق پاک و آسان کردو ، اور جو (تلاشِ رزق کی راہ میں شرعی) حد سے بڑھے اسے اس کی خواہش پر چھوڑ دو ، پھروہ اس درجے سے بڑھ نہیں سکتا جو میں نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔ [4]
(4)جس نے اپنی تمام فکروں کو صرف ایک فکر بنادیا اور وہ آخرت کی فکر ہے تو اللہ پاک اسے اس کی دنیا کی فکر کے لئے کافی ہے اور جس کی فکریں دنیا کے اَحوال میں مشغول رہیں تو اللہ پاک کو اس کی پروا نہیں ہو گی کہ وہ شخص کس وادی میں ہلاک ہو رہا ہے۔ [5]
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ دنیا بہتر بنانے کے بارے میں زیادہ سوچنےکے بجائے قبر و آخرت کے معاملات کی ہولناکیوں اور دہشتوں کے بارے میں زیادہ سوچئے ، دنیا کو جنّت بنانے کے بجائے اپنی قبر کو جنّت کا باغ بنانے کی فکر کیجئے ، دنیا میں آسائشیں اور راحتیں کیسے حاصل ہوں گی اس پر اپنی قوت اور وقت زیادہ صرف کرنے کے بجائے آخرت کی ہمیشہ اور باقی رہنے والی نعمتوں کے حصول کی فکر کیجئے ، اس کے لئے دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول کسی نعمت سے کم نہیں ، خود بھی اس پاکیزہ ماحول سے وابستہ ہوجائیے ، اپنے گھر والوں اور اپنی اولاد کو بھی اس سے وابستہ کیجئے ، نیک اعمال کے رسالے کے مطابق اپنی زندگی گزاریئے اِن شآءَ اللہ فکرِ آخرت نصیب ہوہی جائے گی۔
[1] آداب طعام ، ص385
[2] ابن ماجہ ، 4 / 424 ، حدیث : 4105
[3] شعب الایمان ، 6 / 342
[4] نوادر الاصول ، 2 / 1189 ، حدیث : 1489 ، مرقاۃ المفاتیح ، 1 / 522
[5] ابن ماجہ ، 4 / 425 ، حدیث : 4106
Comments