حدیث شریف اور اس کی شرح
اچھے کردار کا ایک پیمانہ
* مولانا محمد ناصر جمال عطّاری مدنی
ماہنامہ ستمبر 2021
رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ وَاَنَا خَيْرُكُمْ لِاَهْلِي
تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے معاملے میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے معاملے میں تم سب سے بہتر ہوں۔ [1]
“ خیر(بھلائی) “ شر(برائی)کی ضد ہے ، رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چونکہ خیرُ الخلائق(یعنی مخلوقات میں سب سے بہتر) ہیں آپ نے زندگی کے کئی معاملات میں بھی “ سب سے بہتر “ کی نشان دہی فرمائی ہے جس میں عبادات و معاشرت جیسےاہم ترین شعبے بھی شامل ہیں۔
مذکورہ حدیثِ پاک میں “ اہل “ کےساتھ بہتر سلوک کرنے اور حسن ِ اَخلاق سے پیش آنے والے کو بہترین قرار دیا ہے۔ [2]
یاد رہےکہ “ اہل “ کا لفظ “ خونی رشتوں ، بیوی بچّوں ، دوستوں عزیزوں اورہم زمانہ لوگوں “ کے لئےبولا جاتا ہے۔ [3]
تعلیماتِ نبوی کےمطابق معاشر ے کے تمام طبقوں کے ساتھ حسن ِ اَخلاق سے پیش آ نے کی تاکید ہے۔ گھر کے باہر حسنِ اخلاق کا پیکر بننا آسان ہے ، کما ل تو یہ ہے کہ گھر کے اندر اور بالخصوص بیوی کے ساتھ حسن ِ اخلا ق سے پیش آئے ، اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے : ( وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-) ترجمۂ کنز الایمان : اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔ [4] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یعنی تم اپنی بیویوں سےاچھا بولو ، اپنےافعال اور شکل و صورت کو اُن کے خاطر اپنی طاقت کے مطابق اُسی طرح خوب صورت بناؤ جیسے تم اُن سے چاہتے ہو۔ [5]
اہلِ خانہ سے متعلق تین فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
(1)جب تم خود کھاؤ تو بیوی کو بھی کھلاؤ ، جب خود پہنو تو اسےبھی پہنا ؤ ، اس کے چہرے پر مت مارو ، اسے بُرے الفاظ نہ کہو اور اس سے(وقتی)قطع تعلق کرنا ہو تو گھر میں کرو۔ [6]
(2)سب سےبدترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں پر تنگی کرے۔ عرض کی گئی : وہ کیسے تنگی کرتا ہے؟ ارشادفرمایا : جب وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیوی ڈر جاتی ہے ، بچے بھاگ جاتے اور غلام سہم جاتے ہیں اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو بیوی ہنسنے لگےاوردیگر گھر والے سُکھ کا سانس لیں۔ [7]
(3)کامل ترین مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں اور جو اپنے گھر والوں پرسب سے زیاد ہ نرمی کرنے والا ہو۔ [8]
اس سلسلے میں آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی ہمارے لئے رول ماڈل ہےکہ آپ اسلام کی دعوت بھی دیتے ، آنے والے وُفود کا استقبال بھی کرتے ، جنازوں میں شرکت اور مریضوں کی عیادت ، غریبوں کی مدد بھی کرتے ، اِن جیسی لاتعداد مصروفیات کے باوجود ازواجِ مطہّرات کے ساتھ حسن ِ اخلا ق سے پیش آتے ، اُن کے سامنے مسکراتے ، اُن کو بھی ہنساتے ، اُن کے اخراجات کاخیال فرماتے ، اُن پر لطف و کر م فرماتے ، اُن کے حالات سے باخبر رہتے ، عصر کی نماز ادا فرماکر اُن کی خیرخیریت معلوم کرنے تشریف لے جاتے ، جس زوجہ ٔ رسول کے گھر رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رات ٹھہرتےبقیہ ازواجِ مطہرات بھی اُس گھر میں جمع ہوجاتیں ، بسااوقات رات کا کھانا بھی وہیں ہوتا اور پھر وہ تمام اپنے گھر واپس چلی جاتیں ۔ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز ِ عشاء کے بعد سونے سے پہلے اہل ِ خانہ کے ساتھ کچھ دیر انسیت بھری گفت گو بھی فرماتے۔ [9]رسولُ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اہل کے پاس سفر سے رات میں نہیں تشریف لاتے ، آپ صبح کو آتے یا شام کو۔ [10]یہ ذہن میں رہے کہ ازواج ِ مطہرات کا تعلق الگ الگ قبیلوں سے تھا ، عمریں بھی یکساں نہیں تھیں ، مزاج بھی جدا جدا تھے اس کے باوجود رحمت عالم ِ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی عملی زندگی سےکامل بننے کا معیار واضح فرمادیا۔
سیرتِ رسول کے اِن خوب صورت گوشو ں کو سامنے رکھ کر شوہر اپنی بیوی کے لئے کامل اور پرفیکٹ بننا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے ، نرم لب و لہجے میں گفتگو کرے ، محبت وچاہت کا اظہار کرے ، اس کے ساتھ خوش مزاجی اور بےتکلفی سے پیش آئے ، غلطیاں معاف کردے ، لڑائی جھگڑا نہ کرے ، اس کی عزت کی حفاظت کرے ، بحث و تکرار سے بچنے کی پوری کوشش کرے ، اُس پر خرچ کر نے میں کنجوسی سے بچے ، اُس کے گھروالوں کی بھی عزت کرے۔
یوں ہی بیوی اپنے شوہر کے لئےکامل (پرفیکٹ) بننا چاہتی ہے تو ہمیشہ شوہر سے عزّت و احترام کا معاملہ رکھے ، اس سے جھگڑا نہ کرے ، شوہر کی طرف سےشریعت کے مطابق دیا جانے والا ہر حکم مانے ، وہ بات کررہا ہو تو آدابِ گفتگو کا خیال رکھے ، اُس کی بات نہ کاٹے ، پہلے خاموشی سے اُس کی بات سنے پھر کوئی جواب دے ، اس کی غیرموجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے ، شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے ، خوشبو وغیرہ لگائے ، منہ کی صفائی اورکپڑوں کی پاکیزگی کاخاص خیال رکھے ، نہ ملنے پر صبر اور مل جانے پر شکر کی عادت ڈالے ، محبت و شفقت کاانداز اپنائے ، اپنی حیثیت کے مطابق زیب وزینت اپنائے ، شوہرکے گھر والوں اور عزیزوں کااحترام کرے ، اچھے انداز میں ان کا حال پوچھے ، اس کے ہر جائز کام کو سراہے ، اُسےدیکھ کرخوشی کا اظہار کرے۔
اگر تعلیمات ِ نبوی کے مطابق پرفیکٹ ہونے کا یہ معیار ہم نے اپنا لیاتومعاشرے سے شراور فساد کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا اور “ خیر و بھلائی “ ہماری شناخت بن جائے گی ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] ترمذی ، 5 / 475 ، حدیث : 3921
[2]< لمعات التنقیح ، 6 / 121 ، تحت الحدیث : 3252 ، فیض القدیر ، 3 / 661 ، تحت الحدیث : 4100
[3] مرقاۃ المفاتیح ، 6 / 400 ، تحت الحدیث : 3252
[4] پ4 ، النساء : 19
[5] تفسیر ابن کثیر ، 2 / 212
[6] ابو داود ، 2 / 356 ، حدیث : 2142
[7] معجم اوسط ، 6 / 287 ، حدیث : 8798
[8] ترمذی ، 4 / 278 ، حدیث : 2621
[9] تفسیر ابن کثیر ، 2 / 212 ماخوذاً ، التیسر بشرح جامع الصغیر ، 1 / 533
[10] مسلم ، ص819 ، حدیث : 4962
Comments