Book Name:حَسْبُنَا اللہ (یعنی ہمیں اللہ کافِی ہے)
وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠(۶۴) (پارہ:10، الانفال:64)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اور جو مسلمان تمہارے پیروکار ہیں۔
یعنی اے مَحْبُوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! آپ کو آپ کا رَبِّ کریم بھی کافی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ جو آپ کے صحابہ ہیں، آپ کا کلمہ پڑھنے والے پکّے سچّے مسلمان ہیں، یہ بھی آپ کو کافی ہیں۔
مَعْلُوم ہوا؛ ہمیں اللہ کافی ہے، ضرور کافی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اللہ پاک کے بندوں سے مدد مانگنا، نبیوں وَلیَّوں سے مدد مانگنا شِرْک ہے؟ نہیں...!! نہیں...!! بےشک اللہ ہی کافی ہے، بےشک اللہ ہی مددگار ہے مگر وہ مدد مختلف طریقوں سے فرماتا ہے۔ میں ایک مثال کے ذریعے عرض کروں؛ رازِق کون ہے؟ اللہ پاک۔ وہی سب کو رِزْق عطا فرماتا ہے لیکن ہم اللہ پاک کے اُس رِزْق کو حاصِل کرنے کے لئے کیا کرتے ہیں؟ *دُکان کھولتے ہیں *کاروبار کرتے ہیں*محنت مزدُوری کرتے ہیں *کیوں؟ رازِق تو اللہ پاک ہے، پھر ہم دُکان پر کیوں جاتے ہیں؟ یقیناً معمولی عقل رکھنے والا مسلمان بھی یہی کہے گا کہ رازِق اللہ پاک ہی ہے، اُس نے رِزْق عطا فرمانے کے انداز مختلف رکھے ہیں، کسی کو دُکان کے ذریعے رِزْق ملتا ہے، کسی کو محنت مزدوری کر کے ملتا ہے، کسی کا رِزْق ملازمت میں رکھا گیا۔
بالکل اسی طرح ہمیں اللہ پاک کی رحمت کافی ہے، اللہ پاک کی مدد کافی ہے مگر یہ مدد *کبھی کعبے سے ملتی ہے*کبھی بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم سے عطا ہوتی ہے *کبھی غوثِ پاک رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دروازے سے ملتی ہے*کبھی داتا حُضُور رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ