Book Name:Data Huzoor Aur Fikr e Akhirat
باتیں اب عام ہیں مگر دَاتا حُضُور رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کا مُبارَک انداز دیکھئے! ایک طرف آپ کی شہرت ہے، ایک طرف دِین کی سربُلندی ہے، ایک طرف آپ کا نام ہے، دوسری طرف اللہ پاک کی رضا ہے، دَاتا حُضُور رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اپنی شہرت نہ دیکھی، دِین کی سربُلندی دیکھی، اپنا نام نہ رکھا، اللہ پاک کی رضا چاہی، لہٰذا اللہ پاک نے آپ کے کام میں ایسی برکت ڈالی، زبان مبارک میں ایسی تاثِیر رکھ دی کہ پُوری کی پُوری قوم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی۔
پیارے اسلامی بھائیو! حُضُور دَاتا گنج بخش علی ہجویری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ کوئی بھی کام نفس کی خواہش پر نہیں بلکہ اللہ پاک کی رضا کے لئے کیا کرتے تھے، اِس کی صِرْف ایک مثال پیش کروں؛ دَاتا حُضُور رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی خِدْمت میں ایک سُوال پیش ہوا، علمی سُوال تھا، آپ نے اس کا جواب دینا تھا۔ یہ یقیناً خالِص دِینی کام تھا مگر یہ دَاتا گنج بخش علی ہجویری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ تھے، آپ جانتے تھے کہ خالِص دِینی کام میں بھی اگر نفس کی خواہش شامِل ہو جائے تو آخرت کے لئے نقصان دِہ ہو سکتا ہے، چنانچہ آپ نے پہلے اِسْتِخارہ کیا، یہ جاننے کے لئے کہ یہ دِینی کام میری آخرت کے لئے بہتر ہو گا یا نہیں ہو گا؟ استخارے میں بہتری کا اشارہ مِلا، اب بھی آپ نے بےدھڑک جواب لکھنا شروع نہ کر دیا بلکہ فرماتے ہیں: اب میں نے اچھی اچھی نیتیں کیں، پِھر جواب لکھنا شروع کیا۔
آپ نے ایسا کیوں کیا؟ خُود ہی اس کی حکمت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں: جس کام میں نفسانی اَغرَاض (نفسانی خواہشات) شامِل ہوتی ہیں، اس کام سے برکت جاتی رہتی ہے، دِل سیدھے راستے سے ہٹ جاتا ہے اور انجام اچھا نہیں ہوتا۔([1])