Book Name:Data Huzoor Aur Fikr e Akhirat
فرمایا، ارشاد ہوتا ہے:
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَؕ-وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا(۲۰)
(پارہ:15، بنی اسرائیل:20)
تَرْجمۂ کَنْزُ الایمان: ہم سب کو مدد دیتے ہیں، ان کو بھی اور اُن کو بھی، تمہارے ربّ کی عطا سے اور تمہارے ربّ کی عطا پر رَوک نہیں۔
یعنی جو دُنیا کا طلبگار ہے، ایسا نہیں کہ وہ خُود اپنی طَاقت سے دُنیا کما سکتا ہے بلکہ دُنیا کمانے کی طَاقت بھی اسے اللہ پاک ہی دیتا ہے، یونہی جو آخرت کے طلبگار ہیں، وہ بھی اپنی طَاقت سے کچھ نہیں کر سکتے، اللہ پاک ہی ہے جو انہیں توفیق نصیب فرماتا ہے، کائنات کا یہ سب نظام رَبِّ کائنات کی عطا ہی سے چل رہا ہے اور اللہ پاک کی عطا ایسی ہے کہ اُس پر کسی قسم کی کوئی روک نہیں ہے، وہ جسے چاہتا ہے، جب چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، عطا فرما دیتا ہے۔
کَرامات اَوْلیا پر اعتراض کیوں؟
پیارے اسلامی بھائیو! یہاں ایک بات بڑی تَوَجُّہ طلب ہے، ہم الحمد للہ! غلامانِ اَوْلیا ہیں اور اَوْلیائے کرام کی کَرامات کا ذِکْر بھی کرتے ہیں اور یہ ہم ہی نہیں کرتے، اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں کَرامات کا ذِکْر کیا ہے، اَحادیثِ کریمہ میں کَرامتوں کا بیان ہے، حدیثِ پاک کی سب سے معتبر کتاب بُخاری شریف میں بھی کَراماتِ اَوْلیا کا ذِکْر ہے، الحمد للہ! ہم بھی کَرامات بیان کرتے ہیں، بعض دفعہ کَرامات سُن کر ذہنوں میں وَسوسے اُٹھتے ہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیوں ہو گیا؟ لاہور سے کعبہ کیسے دِکھائی دے سکتا ہے؟ ہاتھ لگنے سے شفا کیسے مِل سکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
سوچنے کی بات ہے، سائنسدان (Scientists)دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم چاند پر پہنچ گئے، انسان نے چاند پر قدم لگا دئیے، اِس پر کوئی وسوسہ، کوئی خیال ذِہن میں نہیں اُٹھتا،