Book Name:Data Huzoor Aur Fikr e Akhirat
اگر کوئی چاند پر پہنچا ہے تو کیا اپنی طَاقت سے پہنچا؟ اپنے اِختیار سے پہنچا؟ نہیں...!! طَاقت سب کو اللہ پاک نے دی ہے، اللہ پاک فرماتا ہے:
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَؕ- (پارہ:15، بنی اسرائیل:20)
تَرْجمۂ کَنْزُ الایمان: ہم سب کو مدد دیتے ہیں، ان کو بھی اور اُن کو بھی، تمہارے ربّ کی عطا سے
مَعْلُوم ہوا؛ جو دُنیا کے طلبگار ہیں، طَاقت اُنہیں بھی اللہ پاک عطا فرماتا ہے، جو آخرت کے طلبگار ہیں، طَاقت اور توفیق اُنہیں بھی اللہ پاک ہی عطا فرماتا ہے، جنہوں نے دُنیوی اِیجادات کی طرف تَوَجہ کی، اُنہیں بھی طَاقت اللہ پاک نے بخشی، جو رُوح کو پاک کرنے میں لگے، طَاقت اُنہیں بھی اللہ پاک نے بخشی، دُنیا سائنسی آلات کے ذریعے چاند پر پہنچی، یہ بھی اللہ پاک کی دِی ہوئی طاقت سے ہے، اَوْلیائے کرام رُوحانی بُلندیوں پر پہنچے، یہ بھی اللہ پاک کی عطا ہے، سائنس نے سٹیلائیٹ (Satellite)کے ذریعے پُوری دُنیا کو ایک پیج پر دِکھا دیا، یہ بھی اللہ پاک کی دِی ہوئی طَاقت سے ہے، دَاتا حُضُور رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اپنی رُوحانی طَاقت سے لاہور بیٹھ کر کعبہ دِکھا دیا، یہ بھی اللہ پاک ہی کی عطا سے ہے۔
جس طرح چاند پر پہنچنا سمجھ آجاتا ہے، سٹیلائیٹ کے ذریعے پُوری دُنیا کو گُوگل میپ (Google map)پر دیکھ لینا سمجھ آتا ہے،اِس پر اِعتراض نادانی ہے، یونہی اَوْلیائے کرام کی کَرامات پر اِعتراض (objection)کرنا بھی نَادانی ہے کیونکہ اِن دونوں کے پیچھے جو طَاقت کار فرما ہے، وہ اللہ پاک کی عطا کردہ ہے اور
وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا(۲۰) (پارہ:15، بنی اسرائیل:20)
تَرْجمۂ کَنْزُ الایمان:اور تمہارے ربّ کی عطا پر کوئی روک نہیں ۔