Book Name:Hum Aur Social Media
ہاں! یہ بات دُرُست ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے *عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام کے بیانات سُن کر*مدنی مذاکرے دیکھ کر*آئن لائن کورسز وغیرہ کے ذریعے بھی عِلْمِ دِین سیکھا جا سکتا ہے، یہ بھی عِلْمِ دِین سیکھنے کا ایک اَہَم اور آسان ذریعہ ہے مگر سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر عُلَمائے کرام سے بےنیاز ہو جانا بہت غلط بات ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارا دِین برباد بھی ہو سکتا ہے۔ جی ہاں! سوشل میڈیا کی وجہ سے کتنوں کے عقیدے خراب ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر *مُلْحِدِین (خدا کا انکار کرنے والے) ہیں *پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی گستاخیاں کرنے والے*صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کی گستاخیاں کرنے والے، سب اپنی اپنی دُکانیں لگائے بیٹھے ہیں، جس کے پاس جو ہے، وہ اپنا سودا بیچ رہا ہے۔ یہ ہماری ذِمَّہ داری ہے کہ ہم بچ کر ر ہیں، سوشل میڈیا سے اپنی آنکھوں کو بھی بچائیں، اپنے کانوں کو بھی بچائیں، اپنے دِل کو بھی بچائیں، اپنے عقیدوں کو بھی بچائیں اور اپنا اِیْمان بھی بچائیں۔ اور یہ جو ہمارے ہاں کہا جاتا ہے: سُنو سب کی، کرو اپنی۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ مولانا حسن رضا خان صاحِب رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں:
اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہے ہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند([1])
ہم سب کی نہیں سُنیں گے، صِرْف اس کی سُنیں گے جو *محبوبِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی باتیں کرتا ہے*جس کی باتیں سُن کر دِل میں عشقِ رسول بڑھتا ہے*عشقِ صحابہ بڑھتا ہے*عشقِ اَہْلِ بیت بڑھتا ہے*محبّتِ اَوْلیا میں اِضافہ ہوتا ہےاور جس کی باتوں سے *نفرت کی بُو آتی ہے*جو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کی گستاخیاں کرتا ہے*اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہِ علیہم کی گستاخیاں کرتا ہے، اس کی بات سُننا تو دُور کی بات، اسے دیکھنے سے بھی بچتے رہنا ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم