Book Name:Hum Aur Social Media
قبیلہ بنوتمیم کے ایک شخص کہتے ہیں: ایک مرتبہ میں حضرت عامِر بن عبد اللہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خِدْمت میں حاضِر ہوا، جب پہنچا تو وہ نماز ادا کر رہے تھے، میں انتظار میں بیٹھ گیا، انہوں نے جُونْہی سلام پھیرا تو فرمایا: اپنا کام بتاؤ...!! مجھے جلدی ہے۔ میں نے عرض کِیَا: کیا جلدی ہے؟ فرمایا: اللہ پاک تم پر رحم فرمائے! نہ جانے کب ملک الموت عَلَیْہ ِالسَّلام پہنچ جائیں (یعنی پتا نہیں زندگی کتنی باقی ہے، اس لئے مجھے زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کرنی ہیں، یہ جلدی ہے)۔ ([1])
اللہُ اکبر! پیارے اسلامی بھائیو! غور فرمائیے! یہ تھے اللہ پاک کے نیک بندے، آخرت کی تیاری کرنےو الے لوگ...!! ہمارے پاس تو وقت ہی وقت ہے، دو چار گھنٹے تو سوشل میڈیا پر یونہی فضول میں گزار لیا کرتے ہیں، افسوس! ہمیں وقت کی قدر نہیں رہی مگر یاد رکھئے! زندگی کِنْ کاموں میں گزاری ہے، روزِ قیامت اس کا حساب دینا ہو گا۔
علّامہ اِبْنِ جوزی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت منصُور بن عمّار رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ خلیفہ عبدُ الْمَلِک بن مَرْوَان کے پاس تشریف لائے، خلیفہ نے کہا:اے منصور! میں آپ کو ایک سال کا وقت دیتا ہوں، ایک سوال کا جواب تلاش کر کے لائیے! وہ سوال یہ ہے کہ سب سے زیادہ عقل مند کون ہے؟ اور سب سے زیادہ جاہِل کون ہے؟ عبدُ الْمَلِک بن مَرْوَان کا سوال سُن کر حضرت منصور بن عمّار رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ واپس چل پڑے، ابھی محل کے دروازے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ لوٹ آئے۔ عبدُ الْمَلِک بن مَرْوَان بولا: واپس کیوں