Book Name:Hum Aur Social Media
طرف تَوَجُّہ جانے میں آپ کا اپنا کوئی بھی قُصُور نہیں تھا مگر وہ باغ آپ کا تھا*نہ وہ باغ ہوتا*نہ آپ وہاں نماز پڑھتے*نہ پرندہ اُڑتا*نہ اس طرف تَوَجُّہ جاتی*نہ نماز کی رکعتیں بُھولتیں، یعنی اتنی دُور کے واسطوں سے کہیں نہ کہیں رکعتیں بھولنے کا سبب یہ باغ بنا تھا، چنانچہ آپ فورًا بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوئے اور عرض کیا: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! اب سے یہ باغ صدقہ ہے۔([1])
اللہ! اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! یہ باغ کتنا مہنگا ہو گا...؟ مگر چونکہ نماز میں خلل کا سبب ہو گیا، لہٰذا صدقہ کر دیا گیا۔ ہم سے یہ مطالبہ تو ہے ہی نہیں کہ موبائِل کو صدقہ کر دیا جائے، یہ بھی مطالبہ نہیں ہے کہ موبائِل اپنے پاس رکھا ہی نہ جائے، صِرْف یہ کہا جاتا ہے کہ نماز کے وقت اسے بند کر لیجئے! یا کم از کم سائیلنٹ پر ہی لگا لیجئے! تاکہ نماز میں خلل نہ آئے مگر افسوس! ہم سے اتنی بھی ہمّت نہیں ہو پاتی۔
ویسے ہم ذرا غور کریں؛ ہم اللہ پاک کی یاد کے لئے ٹائِم کتنا نکالتے ہیں...؟ دُکان پر بیٹھے ہیں، کام کاج میں مَصْرُوف ہیں، اذان ہو گئی، ابھی بھی بیٹھے ہیں، پِھر تَثْوِیب ہوتی ہے یعنی دوبارہ سے اِعْلان کیا جاتا ہے، بعض جگہ صَلاۃ و سلام پڑھ کر تَوَجُّہ دِلائی جاتی ہے کہ جماعت کھڑی ہونے والی ہے۔ تب کہیں ہم بھاگتے دوڑتے مسجد میں پہنچتے ہیں، بمشکل جماعت پُوری ملتی ہے، وہ بھی اگر قسمت سے مِل جائے، ورنہ کچھ رکعتیں نکل ہی جاتی ہیں، مشکل سے 15 سے 20 منٹ مسجد میں گزارتے ہیں، یہ تھوڑا سا وقت بھی پُوری تَوَجُّہ کے ساتھ اللہ پاک کی یاد میں نہ گزرے*کبھی میوزیکل ٹُوْنز بَجْ رہی ہیں*کبھی موبائِل کی