ہماری کمزوریاں

ٹال مٹول (Evasion)

* محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ فروری 2021

کہتے ہیں : ایک شخص نے صابن کا کاروبار شروع کیا ، کچھ ہی عرصے میں اس کی پراڈکٹ مقبول ہوگئی ، گاہگوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے چھوٹی سی فیکٹری میں ڈبل شفٹ میں کام ہونے لگا۔ ایک خیرخواہ کاروباری نے مشورہ دیا کہ اس پراڈکٹ کو اپنے نام رجسٹرڈ کروا لو ، اس نے ہامی تو بھر لی لیکن آج کل آج کل کرتے کئی ہفتے گزر گئے ، رجسٹریشن نہیں کروائی۔ دوسری طرف ایک شخص نے جب اس صابن کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ دیکھی تو اسی فارمولے اور نام سے صابن تیار کرکے مارکیٹ میں سپلائی کرنا شروع کردیا ۔ اس نے بڑی چالاکی سے اس پراڈکٹ کو اپنے نام رجسٹرڈ بھی کروا لیا اور اصل مالک پر عدالت میں کیس بھی کردیا کہ یہ ہماری پراڈکٹ جعلی طور پر تیار کرکے مارکیٹ میں بیچتا ہے ، اصل شخص نے بڑا شور مچایا کہ یہ میری پراڈکٹ ہے ، کیس کرنے والے کو طرح طرح کی پیش کش بھی کی لیکن وہ ظالم نہیں مانا ، نتیجتاًاصل مالک کو پراڈکٹ سے ہاتھ دھونے پڑے اور مالی نقصان الگ سے ہوا۔

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین!یہ اسٹوری فرضی ہوسکتی ہے لیکن اس سے ملنے والا سبق اصلی ہے کہ اہم معاملات میں ٹال مٹول بالآخر نقصان کرواتی ہے ۔ ’’ تھوڑی دیر بعد کرتا ہوں ، آج نہیں کل کروں گا ، ابھی نہیں بعد میں کروں گا ، اتنی جلدی بھی کیا ہےبس کچھ ہی دنوں میں آپ کا کام ہوجائے گا‘‘اس طرح کے ٹالنے والے جملے آپ نے کئی مرتبہ سنے ہوں گے۔ دیکھا جائے تو ہماری اکثریت ٹال مٹول کی منفی عادت میں مبتلاہے؛ * قرض واپس کرنا ہوتو ٹال مٹول * استعمال کے لئے کسی سے کوئی چیز لی تو لَوٹانے میں ٹال مٹول * دکان یا مکان کا کرایہ ادا کرنے میں ٹال مٹول * رشتے کی ہاں یا ناں کرنے میں ٹال مٹول * بیماری کی تشخیص کے لئے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کروانے میں ٹال مٹول * شوگر ، بلڈ پریشر ، ہارٹ پرابلم وغیرہ میں مبتلا ہونے والوں کا پرہیز کرنے میں ٹال مٹول * موٹاپے کے شکار شخص کا کم کھانے میں ٹال مٹول * صحت کی بہتری کے لئے روزانہ کچھ نہ کچھ پیدل چلنے کی عادت بنانے میں ٹال مٹول * اسٹوڈنٹ کا پڑھائی میں محنت کرنے میں ٹال مٹول * کاریگر کا بَروقت چیز ٹھیک کرنے کے بجائے ٹال مٹول* نماز ، حج اور زکوٰۃ جیسی فرض عبادتوں کی ادائیگی میں ٹال مٹول اور گناہوں سے توبہ کرنے جیسے بے شمار کاموں میں ٹال مٹول کرنا ہمارے یہاں رواج پاچکا ہے ۔

ٹال مٹول کے 10نقصانات : ٹال مٹول کا ’’ناسُور‘‘ ہمارے معاشرے کے سکون ، ترقی اور خوشحالی کو چاٹ رہا ہے۔ اس کے ممکنہ نقصانات کی فہرست پر ایک نظر ڈالئے : (1)ٹال مٹول کرنے والا لوگوں میں اپنا اعتبار کھودیتا ہے (2)لوگ اس کے ساتھ کاروبار نہیں کرتے اور ایسے شخص کو نوکری دیتے ہوئے بھی کتراتے ہیں (3)ٹال مٹول کرنے والے کاریگر سے اپنی چیزیں ٹھیک نہیں کرواتے (4)اپنی ذمہ داری وقت پر انجام نہ دینے والے سے گھر کے افراد بھی ناراض رہنے لگتے ہیں (5)وقت پر کام کرنے کے بجائے ٹال مٹول کرنے والا وقتی طور پرخود کو بڑا اِیزی محسوس کرتا ہے لیکن جب اسے اپنے ٹالے ہوئے بہت سے کام ایک ساتھ کرنا پڑتے ہیں تو اسے زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے (6)ضروری سرکاری کاغذات بنوانے میں ٹال مٹول کرنے پر بعض اوقات سرکاری جرمانے اور سزائیں بھی جھیلنی پڑ جاتی ہیں (7)اپنے من پسند رشتے کے انتظار میں اچھے رشتوں کو ٹالتے رہنے سے وقت نکل جاتا ہے پھر لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے لئے “ جو آجائے قبول ہے “ کی صورتِ حال بن جاتی ہے (8)بائیک ، گاڑی وغیرہ کی ضروری مرمّت میں ٹال مٹول کی وجہ سے مرمّتی اخراجات بڑھ بھی سکتے ہیں جس سے مالی نقصان ہوتا ہے (9)قرض کی واپسی اور فرض عبادتوں کی ادائیگی ، حقوقُ العباد تلف ہونے پر معافی اور گناہوں سے دوری میں ٹال مٹول کرنا ہماری آخرت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے (10)ٹال مٹول کے جال میں قید شخص ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو سکتاہے ۔

ٹال مٹول کے 9اسباب : ہم ٹال مٹول کیوں کرتے ہیں؟ اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں؛ (1)ہماری طبیعت میں پائی جانے والی سُستی ٹال مٹول میں سب سے زیادہ کارفرما ہوتی ہے (2)انسان معمولی تھکاوٹ کی وجہ سے اُس کام کوبھی کل پر ٹالنے لگتا ہے جس کا آج کرنا ضروری ہوتا ہے(3)کبھی کسی اچھے موقع یا موزوں وقت کے انتظار کے نام پر ٹال مٹول کی جاتی ہے ، سوچئے کہ اگر کوئی نہر کنارے کھڑے ہوکر سوچے کہ جب اس کا پانی رُکے گا اور زمین دکھائی دے گی تو میں نہرپار کروں گا توایسے شخص کی حماقت پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے (4)ذہنی طور پر تیار نہ ہونے کا بہانہ کرکے بھی کام سے جان چھڑائی جاتی ہے(5)غیرضروری منصوبہ بندی بھی ٹال مٹول کا سبب بنتی ہے اور ہمارا وقت بھی ضائع کرتی ہے ، یاد رکھئے! منصوبہ سازی کیسی ہی جامع اورکامل ہو عملی قدم اٹھائے بغیر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی(6)کسی بھی کام کو اچّھے انداز میں کرنے کے لئے نئے آئیڈیاز ڈھونڈنا اچھی بات ہے لیکن نِت نئے آئیڈیاز کے بعض شائقین مسئلے کے غیرروایتی حل کے لئے کاموں کو ٹال دیتے ہیں پھر جونہی وہ کسی کام کو کرنے لگتے ہیں ایک نیا آئیڈیا ان کے ذہن میں کَھلْبَلانے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ کام ایک بار پھر ہونے سے رہ جاتا ہے (7)کسی کام کو کامل اندازمیں کرنا اچھی بات ہے لیکن پرفیکشن کے نام پر ہر معاملے کو ٹالتے رہنا کہ ابھی یہ کام کروں گا تو اچھا نہیں ہوسکے گا ، مناسب نہیں (8)مَلٹی ٹاسکِنگ یعنی بَیَک وقت دو ، تین یا چار یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے کی ذمہ داری لینا ہرکسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں کئی اہم کام ہونے سے رہ جاتے ہیں (9)کسی کام کو فوری طور پر کرنے میں بعض اوقات ہماری ترجیحات بھی رکاوٹ بنتی ہیں چنانچہ ہم اس کام کو ٹال دیتے ہیں ، بہرحال اتنا ضرور غور کرلیا جائے کہ کہیں ہماری ترجیحات غلط نہ ہوں! مثال کے طور پر کئی لوگ صبح کے وقت آسان کام سے آغاز کرتے ہیں مشکل کاموں کو بعد کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور جب مشکل کام کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ تھک چکے ہوتے ہیں۔

ٹال مٹول سے چھٹکارا کیسے پائیں؟ کسی بھی کمزوری یا خامی کو اسی وقت دور کیاجاسکتا ہے جب اسے تسلیم کیا جائے اور اس سے چھٹکارا پانا ضروری بھی سمجھا جائے ، چنانچہ خود پر تھوڑی سختی کیجئے اور اپنے ذہن میں ’’آج نہیں کل سہی ‘‘کی جگہ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں ‘‘بٹھا لیجئے ، ٹال مٹول کرنے کی روٹین میں تبدیلی آئے گی۔ اس خوش فہمی سے بچئے کہ مستقبل میں میرے پاس زیادہ وقت اور سہولت ہوگی اور میں اس کام کو زیادہ اچھے انداز میں کرسکوں گا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی مصروفیات بڑھتی اور صحت وطاقت گھٹتی ہے۔ کسی کام کو انجام دینے کے لئے بہت زیادہ وقت مُقرّر نہ کریں ، مینجمنٹ کا ماہر ایک برطانوی مصنف پارکنسن لکھتا ہے : “ جب ہم کسی کام کو کرنے کے لئے بہت سا وقت مختص کریں تو وہ کام پھیل جاتا ہے۔ ‘‘اس کی مثال کمرہ ٔامتحان سے سمجھی جاسکتی ہے کہ جتنے صفحات ہم وہاں پر صرف تین گھنٹے میں لکھ آتے ہیں ، باہر آکر وہی صفحات دوبارہ لکھنے پڑیں تو شاید ہم تین دن کا وقت مانگیں۔ کام کو پھیلانے کے بجائے کم وقت میں زیادہ کام کرنے کی عادت بنالیجئے ، اِنْ شَآءَ اللہ پُرسکون رہیں گے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* چیف ایڈیٹر ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code