سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

شانِ حبیب بزبانِ حبیب(قسط : 02)

* ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فروری 2021

گزشتہ سے پیوستہ

دعائے ابراہیمی کا ثمر :

(1)اَنَا دَعْوَةُ اَبِى اِبْرَاهِيْمَ قَالَ وَهُوَ يَرْفَعُ الْقَوَاعِدَ فِى الْبَيْتِرَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ ([i])

ترجمہ : میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دُعا  ہوں جو انہوں نے بِنائے کعبہ کو بلند کرتے وقت مانگی ، اے ہمارے رب! انہیں میں سے ان میں ایک رسول بھیج۔ ([ii])

اللہ کے پیارے نبی جنابِ خلیلُ اللہ  علٰی نَبِیِّنَا وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام  اور ان کے فرزندِ اَرجُمَند جنابِ اسماعیل  علیہ السَّلام  جب خانۂ کعبہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو اس دوران کچھ دعائیں مانگیں :

( وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷) رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪-وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۲۸) رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹) ) تَرجَمۂ کنزُالایمان : اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں (بنیادیں) اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما ، بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا ، اے رب ہمارے اور کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والے اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمان بردار اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما ، بےشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ، اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرما دے بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔ ([iii](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ کریم نے ان کی یہ دعائیں قبول فرمائیں اور مکہ پاک میں اہلِ مکّہ میں سے سب سے اعلیٰ خاندان میں پیارے رسول مصطفےٰ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو پیدا فرمایا اور آپ نے ان پر قراٰنِ پاک کی آیات تلاوت فرمائیں ، انہیں کتاب و حکمت اور خوب دانشمندی سکھائی اور کُفر و شرک کی نجاستوں سے نکال کر پاک کردیا۔

بشارتِ عیسیٰ :

(2)اَنَا دَعْوَةُ اِبْرَاهِيْمَ وَكَانَ آخِرُ مَنْ بَشَّرَ بِي عِيْسىَ بْنُ مَرْيَمَ یعنیمیں حضرت ابراہیم کی دعا ہوں اور جس جس نبی نے میری بشارت دی ان میں سب سے آخر میں بشارت دینے والے عیسیٰ ابنِ مریم ہیں۔ ([iv])

(3)اَنَا دَعْوَةُ اِبْرَاهِيمَ ، وَبُشْرىٰ عِيسىٰ ، وَرُؤْيَا اُمِّي الَّتِي رَاَتْ یعنی میں ہی حضرت ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا۔ ([v])

ان دونوں فرامین میں حضرت عیسٰی  علیہ السَّلام  کی اس بشارت و خوشخبری کی جانب اشارہ ہے جو انہوں نے آخری نبی محمد مصطفےٰ ، احمد مجتبیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بارے میں اپنی امت کو دی ، قراٰنِ کریم میں ہے : ( وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور یاد کرو جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔ ([vi](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دوسرے فرمانِ عالی میں “ رُؤْيَا اُمِّي الَّتِي رَاَتْ “ کے الفاظاس حقیقت کی جانب اشارہ کررہے ہیں جو والدہ ماجدہ خواب میں پہلے ہی ملاحظہ فرماچکی تھیں نیز  جب آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ولادت ہوئی تو ایک ایسا  نور ظاہر ہوا کہ جس سے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیّدہ ، طیبہ ، طاہرہ بی بی آمنہ   رضی اللہ عنہا  کے لئے  ملکِ شام کے محلات روشن ہوگئے۔ ([vii]) یہ دراصل اس جانب اشارہ تھا کہ اے آمنہ! تیرا یہ فرزند اس قدر رفیع الشان ہے کہ ایک دن ان محلات میں بھی اسی کا نام گونجے گا۔

اور کفر مٹ گیا :

(4)اَنَا المَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الكُفْرَ یعنی میں ہی مٹانے والا ہوں کہ میرے ذریعے اللہ پاک کفر مٹادے گا۔([viii])

اللہ کریم نے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ذریعے ساری دنیا میں اسلام کی جلوہ گری فرمائی ، ہر جانب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا فیضان پھیلا ، ہزاروں سال سے کُفر میں ڈوبے ہوئے علاقے اللہُ اَکْبَر کی صداؤں سے گونج اٹھے۔ کفر کا مٹنا کئی طرح سے ظاہر ہوا کہ کہیں تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی دعوتِ مبارَکہ سُن کر لوگ دامنِ اسلام میں آئے اور کفر مٹا ، کہیں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں ، پتھر مار مار کر لہولہان کرنے والوں کے لئے دعائے ہدایت فرمائی تو وہ اور ان کی آنے والی نسلیں مسلمان ہوگئیں اور کفر مٹا ، کبھی فتحِ مکّہ کے موقع پر بڑے بڑے ظالموں کو “ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم “ کا مژدہ ملتا ہے تو بڑی تعداد قبولِ اسلام کرتی ہوئی کفر کے مٹنے کا سبب بنتی ہے تو کبھی پتھروں کے کلمہ پڑھنے ، چاند کے دو ٹکڑے ہونے ، زبانِ اقدس سے تلاوت قراٰن سننے ، چہرۂ زیبا کا نورِ مبارک دیکھنے اور سخاوتِ بے مثال دیکھنے سے لوگ کلمۂ توحید کا اقرار کرنے لگے اور کفر مٹا ، یہاں تک کہ جہاں رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا نہ کوئی قاصد گیا اور نہ ہی آپ خود گئے بلکہ ربّ کریم نے آپ کے اسم گرامی “ الماحی “ کی شان و عظمت کو بڑھایا ، وہ یوں کہ  کئی  راہبوں نے بھی غلبۂ اسلام کی پیشن گوئیاں کیں جس سے بہت سوں کو دامنِ اسلام میں پناہ ملی ، ان میں سے ایک ایمان افروز واقعہ کاتبِ وحی حضرت سیّدُنا اَبان بن سعید  رضی اللہ عنہ  کے ایمان لانے کا بھی ہے چنانچہ منقول ہے کہ آپ تجارت کی غرض سے ملکِ شام گئے تو وہاں ایک راہب سے ملاقات ہوئی ، آپ نے اس راہب سے کہا کہ میں قریش سے ہوں اور ہمارے میں سے ایک شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور اسے اللہ نے موسیٰ اور عیسیٰ کی طرح رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس راہب نے نام پوچھا تو آپ نے بتایا : محمد  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، راہب نے کہا : میں تمہیں ان کا حلیہ بیان کرتا ہوں چنانچہ راہب نے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصاف و حلیہ مبارک بیان کیا ، تو آپ نے کہا کہ جی ہاں وہ ایسے ہی ہیں۔ تو راہب نے کہا : اللہ کی قسم! وہ عرب پر غالب آئیں گے ، پھر تمام روئے زمین پر غالب آئیں گے اور آپ سے کہا کہ اس مردِ صالح سے میرا سلام کہنا ، یوں آپ واپسی پر صلح حدیبیہ کے بعد داخلِ اسلام ہوگئے اور کفر کے مٹنے کا ذریعہ بنے۔ ([ix])

(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])   پ1 ، البقرۃ : 129

([ii])   طبقات ابن سعد ، 1 / 118

([iii])   پ1 ، البقرۃ : 127تا129

([iv])   تاریخ ابن عساكر ،  3 / 393

([v])   مجمع الزوائد ، 8 / 409 ، حدیث : 13845

([vi])   پ28 ، الصف : 6

([vii])   دلائل النبوۃ للبیہقی ، 1 / 80

([viii])   بخاری ، 2 / 484 ، حدیث : 3532

([ix])   اسد الغابہ ، 1 / 59


Share

Articles

Comments


Security Code