احکام تجارت

* مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری

ماہنامہ فروری 2021

 فٹ پاتھ یا روڈ پر پتھارے یا دکان لگانا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض لوگ روڈ پر یافٹ پاتھ پر دکان یا پتھارے لگالیتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : روڈوں پر دکانیں لگانا ، اسی طرح فٹ پاتھ پر پتھارے لگالینا عام لوگوں کے لئے ایذاء کا باعث بنتا ہے کیونکہ ان دکانوں اور پتھاروں کی وجہ سے روڈ پر گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ نہیں رہتی ، فٹ پاتھ پر لوگوں کے لئے چلنے کی جگہ نہیں رہتی جس سے لوگوں کو  ایذاء پہنچتی ہے اور  اس طرح روڈ پر تجارت کرنا کہ لوگوں کو اذیت ہو ، یہ جائز نہیں ، بلکہ علمائے کرام  نے ایسے لوگوں سے خریداری کرنے سے بھی منع فرمایا ہے کہ جب لوگ خریدیں گے ہی نہیں تو وہ وہاں سے دکان اور پتھارا ہٹانے پر مجبور ہوں گے۔

صدرالشریعہ ، بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں : “ جو شخص راستہ پر خرید و فروخت کرتا ہے اگر راستہ کشادہ ہے کہ اس کے بیٹھنے سے راہ گیر وں پر تنگی نہیں ہوتی تو حرج نہیں اور اگر گزرنے والوں کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوجائے تو اُس سے سودا خریدنا نہ چاہیے کہ گناہ پر مدد دینا ہے کیونکہ جب کوئی خریدے گا نہیں تو وہ بیٹھے گا کیوں۔                   (بہارِ شریعت ، 2 / 726)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مسجد میں R.O پلانٹ لگا کر اس کی آمدنی مسجد میں لگانا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسجد میں ایک کمپنی نے R.O پلانٹ لگایا اور کہا کہ اس مسجد کے کنویں کے پانی کو صاف کرکے بیچیں اور اس کی آمدنی مسجد میں ہی  لگائیں۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : جی نہیں! ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں۔ مسجد کی جگہ ، اس کی موٹر وغیرہ دیگر چیزیں مسجد کے کاموں کے لئے ہی وقف ہوتی ہیں انہیں کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا وقف کا خلافِ مصرف استعمال ہے اور وقف کا خلافِ مصرف استعمال جائز نہیں۔

R.O پلانٹ کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ مسجد یا نمازیوں کی ضرورت کے لئے نہیں لگایا جاتا بلکہ محلے والوں کے لئے لگایا جاتا ہے جو کہ ایک فلاحی کام ہے اور مساجد فلاحی کاموں کے لئے نہیں۔ لہٰذا R.O پلانٹ مسجد میں نہیں لگاسکتے۔

جہاں تک کنویں کے پانی کی بات ہے تو کنویں کا پانی  اگرچہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتا لیکن جب وہ پانی کنویں سے نکال کر  مسجد کی ٹنکی میں ڈال دیا جائے تو وہ مسجد کی ملکیت ہوجاتاہے لہٰذا اس پانی کو مسجد کے نمازی ہی استعمال کرسکتے ہیں اس پانی کو بیچنا ہرگز جائز نہیں چاہے آمدنی مسجد میں ہی کیوں نہ لگائی جائے۔

اعلیٰ حضرت  علیہ الرَّحمہ  فرماتے ہیں : “ جو زمین متعلق مسجد ہے وہ مسجد ہی کے کام لائی جاسکتی ہے اور اس کے بھی اسی کام میں جس کے لئے واقف نے وقف کی ، وقف کو اس کے مقصدسے بدلنا جائز نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ، 16 / 547)

بہارِ شریعت میں ہے : “ مسجد کے ڈول رسی سے اپنے گھر کے لئے پانی یا کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا ، ناجائز ہے۔ “ (بہارِ شریعت ، 2 / 562)

فتاویٰ خلیلیہ میں مسجد کے پانی ، بجلی یا کوئی اور چیز عام استعمال کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا : “ مسجد کی اشیاء صرف مسجد میں استعمال ہوسکتی ہیں۔ مسجد کے علاوہ کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کرسکتے۔ “ (فتاویٰ خلیلیہ ، 2 / 579)

اسی میں ہے : “ سرکاری نل سے آنے والا پانی اگر مسجد کی ٹنکی میں آچکا تو مسجد کی ملک ہوگیا اسے اب گھریلو استعمال میں لانا جائز نہیں۔ “ (فتاویٰ خلیلیہ ، 3 / 538)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دکاندار کا راہِ خدا کے لئے الگ کی ہوئی رقم استعمال کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری دودھ دہی کی دکان ہے میں روزانہ  مسجد کے نام پر کچھ پیسے نکال کر الگ کرلیتا ہوں۔ اگر کبھی ضرورت پڑے تو کیا میں اس رقم کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہوں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : مسجد میں دینے کی نیت سے رقم الگ کرلینے سے وہ رقم آپ  کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی بلکہ جب تک وہ رقم مسجد میں نہ دے دی جائے آپ کی ملکیت میں ہی رہتی ہے لہٰذا اگر وہ رقم آپ نے کسی اور کام میں خرچ کردی تو گناہ نہیں۔  بعد میں اتنی ہی رقم مسجد میں دے دیں تو اچھی بات ہے اگر نہ دیں تب بھی کوئی گناہ نہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ جب نیکی کا ارادہ کیا ہے تواس ارادے کو عملی جامہ پہنائیں۔

اعلیٰ حضرت  علیہ الرَّحمہ  سے سوال ہوا کہ “ ایک شخص نے وقت شروع کرنے روزگار کے ، یہ خیال کرلیا کہ مجھ کو جو نفع ہوگا اس میں سولہواں حصہ واسطے اللہ کے نکالوں گا “ اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں : “ صرف خیال کرلینے سے وجوب تو نہیں ہوتا جب تک زبان سے نذر نہ کرے ، ہاں جو نیت اللہ عزوجل کے لئے کی اس کا پورا کرنا ہی چاہیے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 13 / 594)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code