Book Name:Hajj Ka Sawab Dilanay Walay Amal

یقیناً ہمارے والدین کے ہم پر بہت احسان ہیں، اتنے احسان ہیں کہ ہم ان کا بدلہ چُکا ہی نہیں سکتے۔ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سے سُوال ہوا: ماں باپ کے کتنے حقُوق ہیں (یعنی پوچھنے والا یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ حقُوق کی گنتی بتا دی جائے تاکہ میں وہ گِن کر پُورے پُورے ادا کر لُوں)۔ سیدی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس کا جو جواب دِیا، کمال تھا، آپ نے ایک جملے میں بات ختم کی، فرمایا: ماں باپ کا حق اتنا ہے کہ اگر یہ وفات پا جائیں اور بیٹا انہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہو تو کرے۔ ([1])

کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح مُردَے کو زندہ کرنا عام آدمی کیلئے ناممکن ہے، یُونہی والدین کے حُقُوق پُورے کر لینا، ان کی کوئی گنتی رکھنا، یہ بھی ناممکن ہے۔ اب اگر ہم ان کے احسانات اور اتنے حقُوق کا خیال رکھتے ہوئے، انہیں پیار سے دیکھیں، ان سے پیار سے بات کریں تو ہمارا کیا جاتا ہے؟ بلکہ جانا کیا ہے، رَبِّ کریم اپنی رحمت سے مقبول حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ اس لئے عادَت بنائیے! زیادہ نہیں تو کم از کم دِن میں ایک مرتبہ حدیثِ پاک ذِہن میں رکھ کر اچھی نِیّت کے ساتھ والدَین کی پیار سے زیارت کرنے کی عادَت لازمی بنا لیجئے!

(3):والدین کی قبر پر حاضِری دینا

وہ اسلامی بھائی جن کے والِدَین اس دُنیا میں نہیں ہیں، وفات پا چکے ہیں، وہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم حج کا ثواب کیسے کمائیں؟ ہم والدین کی زیارت کیسے کریں گے؟ ان کی خِدْمت میں عرض ہے کہ گھبرائیے نہیں، الحمد للہ! ہمارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن(یعنی تمام جہانوں کیلئے رحمت) ہیں، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کسی کو بھی مَحْرُوم نہیں چھوڑتے، وہ لوگ جن کے والدین دُنیا سے پردہ کر چکے ہیں، قبروں میں آرام فرما ہیں، رسولِ


 

 



[1]...فتاویٰ رضویہ، جلد:24، صفحہ:370ملخصاً۔