Book Name:حَسْبُنَا اللہ (یعنی ہمیں اللہ کافِی ہے)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم نے نُعَیْم بن مَسْعُود کو یہ جواب دیا اور پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے ساتھ بدر میں تشریف لے گئے۔ اُدھر ابوسفیان اور مکّے کے غیر مُسْلِم تو خوف میں مبتلا تھے، انہوں نے نہ آنا تھا، نہ ہی بدر میں آئے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم نے بدر میں خوب تجارت(Tradeing) کی، مُنَافع کمایا اور خُوشی خوشی واپس آ گئے۔ اس واقعہ کو غزوۂ بدر صُغْریٰ کہا جاتا ہے۔ ([1])
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کے اس ایمانی جذبے کے صلے میں اللہ پاک نے انہیں 4 انعامات عطا فرمائے، ارشاد ہوتا ہے:
فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌۙ-وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ(۱۷۴) (پارہ:4، ال عمران:174)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:پھر یہ اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے، انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور انہوں نے اللہ کی رضا کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
(1):ایک اِنْعام تو یہ کہ انہیں اللہ پاک کی نعمتیں نصیب ہوئیں کہ انہوں نے بدر میں خُوب تجارت کی اور مال کمایا۔ (2):دوسرا انعام یہ ہوا کہ اللہ پاک کا فضل ان کے شامِلِ حال ہوا، مکّے والے ڈر کے مارے بدر میں نہ آئے، (3):تیسرا انعام یہ کہ انہیں نہ لڑنا پڑا، نہ کوئی جانی مالی نقصان ہوا اور(4): چوتھا اور اَہَم ترین اِنْعام یہ مِلا کہ انہیں اللہ پاک کی رضا نصیب ہو گئی جو دوجہانوں کی سب سے بڑی نعمت ہے۔([2])
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسؔن بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کارساز کا([3])