
امیر اہل سنت کا تحریری پیغام
خوشبو لگایئے مگر تکلیف نہ دیجئے!
امیرِ اَہلِ سنّت، حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
خوشبو لگانا سنّت ہے۔([1]) اگر آپ کے خوشبو لگانے سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے مثلاً کسی کو الرجی ہوتی ہے، چھینکیں آتی ہیں اور سر درد ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ تو پھر اُس وقت آپ کو خوشبو لگانے کی اجازت نہیں ملے گی، یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جس کو خوشبو سے تکلیف ہورہی ہے آپ اُس کو بولیں: ”تمہیں اچھی نہیں لگتی تو تم اٹھ جاؤ!“ ہمیں مسلمان کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہئے اور اُس کو تکلیف سے بچانا چاہئے کہ کسی کی تکلیف دور کرنا نفع اُٹھانے سے زیادہ اہم ہے۔
عِطر لگاتے وقت دوسروں کا لحاظ رکھئے!
بسااوقات محفلوں میں لوگ سب کو عِطر لگارہے ہوتے ہیں تو اُس وقت جن کو خوشبو سے الرجی ہوتی ہے وہ اپنا ہاتھ چُھپالے لگانے والا اُسے لگانے پر مجبور کرتے ہوئے اس طرح کی باتیں کرکے اس کو شرمندہ نہ کرے کہ خوشبو لگانا سنّت ہے، اگر کوئی خوشبو کا تحفہ دے تو قبول کرنا سنّت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کو یوں سمجھئے کہ جس کو شوگر کا مرض ہو اور وہ انسولین کے انجکشن لگواتا ہو، اُس کو آپ کہیں ”یہ لو مٹھائی کھا لو“ اور وہ منع کرے تو اُس کو آپ کہیں کہ میٹھا کھانا سنّت ہے اور اُس کو یہ حدیث سنائیں: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الحَلْوَاءَ وَالعَسَلَ یعنی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حلوا اور شہد پسند تھے۔ ([2]) اس میں حلوا سے مراد ہر میٹھی چیز حلوا، میٹھائی وغیرہ سب شامل ہیں۔([3]) یہ لو مٹھائی کھالو، سنّت مت چھوڑو وغیرہ مریض کو کہنے کی اجازت نہیں ملے گی کہ پرہیز بھی حدیثوں سے ثابت ہے۔
گلاب یا عِطر کا پانی چھڑکنے والے متوجہ ہوں!
اسی طرح محفلوں میں عوام پر گلاب کا پانی یا عِطر کا پانی چھڑکا جاتا ہے، گلاب کی خوشبو بھی بعض کو موافق نہیں آتی، پھر بعض اوقات ان کو چھینکیں شروع ہوجاتی ہیں اور وہ آزمائش میں آجاتے ہیں۔ ایک بار جُلُوسِ میلاد کے موقع پر کسی نے مجھ پر عطر چِھڑکا جو اُڑ کر میری آنکھ میں آگیا اس کے بعد مجھ پر کیا گزری ہوگی یہ ہر سمجھدار شخص سمجھ سکتا ہے۔ بعض اوقات کسی سے فرینڈ شپ ہوتی ہے تو یہ اُس کے منہ پر پانی چھڑک دیتے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اب کوئی دین کی باتیں سیکھ رہا ہو یا مسئلہ سُن رہا ہو اور اُس کے عِطر لگادی یا اُس کے منہ پر خوشبودار پانی چھڑک دیا تو اُس کی توجہ بٹ جائے گی اور ہوسکتا ہے وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھ بیٹھے۔ ایک مرتبہ میں نے مدنی مذاکرے میں کسی کو خوشبودار پانی چھڑکتے دیکھا، تو اس کو سمجھایا کہ اس سے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے، لوگ دین کی باتیں یا کوئی مسئلہ سُن رہے ہوتے ہیں توجہ بٹ جاتی ہے تو وہ فوراً مان گئے اور بیٹھ گئے۔
مساجد کو خوشبودار رکھئے، مگر!
لوگ مساجد کو خوشبودار بنانے کے لئے بسااوقات مسجد کی دَری پر عطر کی شیشی چِھڑکتے ہیں جس کی وجہ سے مسجد کی دَری پر دَھبا آتا اور اس پر میل جم جاتا ہے۔یُوں عارضی خوشبو کی مہک آئے بھی تو نتیجتاً دَری خراب ہو جاتی ہے تو یہ مسجد کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوا۔ البتہ مَساجد کو خوشبودار رَکھنے کے لئے اصلی لوبان اور خوشبودار اگر بتىاں جَلائى جا سکتى ہىں۔ اگربتیاں وغیرہ جلاتے وقت([4]) اِس بات کا خیال رکھئے کہ خوشبو عمدہ اور بھینی بھینی ہو تا کہ کسی نمازی وغیرہ کو تکلیف نہ ہو۔ ورنہ اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہے یاقراٰنِ کریم کی تلاوت کر رہا ہے اور اگربتیوں کے دھوئیں سے اُسے تکلیف ہورہی ہے یا چھینکیں آرہی ہیں تو آپ اُسے نفع نہیں بلکہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آج کل عُود کے نام پر طرح طرح کی لکڑیاں ملتی ہیں جنہیں کیمیکل کے عطر میں بِھگو کر رکھا جاتا ہے جس کے باعِث وہ خوشبودار بن جاتی ہیں اور پھر لوگ انہیں یا ان لکڑیوں کا بُرادہ خرید کر مسجد میں جَلاتے ہیں۔ اگرچہ خوشبو کے لئے خود ان لکڑیوں اور ان کے بُرادے کو جَلانا جائز ہے مگر خوشبو ایسی ہونی چاہئے کہ جس سے لوگوں کو تکلیف نہیں بلکہ راحت پہنچے۔
مکہ شریف میں بھی بعض لوگ عِطر لگا رہے ہوتے ہیں، انہیں چاہئے کہ احرام والوں کو نہ لگائیں۔
عطر لگائیے لیکن کپڑے خراب نہ کیجئے!
اسی طرح بعض عِطر لگانے والے ڈائریکٹ کپڑوں پر بھی عِطر لگادیتے ہیں جس سے کپڑوں پر عِطر کا رنگ یا کیمیکل وغیرہ کا دھبا لگ جاتا ہے اور کپڑوں پر یہ دھبا بد نما لگتا ہے۔ بعض خود اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر عِطر لگا کر دوسروں کے کپڑوں پر لگاتے ہیں اس سے بھی دوسروں کے کپڑے خراب ہوسکتے ہیں، لہٰذا اس طرح کرنے سے بچنا چاہئے۔ دوسروں کو عِطر لگانے کا سب سے بہتر انداز یہ ہے کہ آپ ان سے اشارے وغیرہ سے معلوم کرلیں کہ عِطر لگائیں گے؟ اگر وہ ہاں کہیں تو آپ اُس کے ہاتھ پر عِطر لگا دیجئے یا اپنی ہتھیلی پر تھوڑا سا عطر لگا کر اچھی طرح ملنے کے بعد اس طرح دوسرے کے کپڑے پر لگائیں کہ کسی طرح کا نشان نہ بنے۔
امامِ اہلِ سنّت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:
وَاللہ جو مل جائے مِرے گل کا پسینا
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دُلہن پھول([5])
شرح کلامِ رضا: اللہ ربُّ العزت کی قسم! اگر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مُبارک پسینا مل جائے تو پھر دلہن کو خوشبو کے لئے کسی عطر اور پھول کی ضَرورت نہیں رہے گی۔
Comments