Saaray Oonchon Se Ooncha Hamara Nabi

Book Name:Saaray Oonchon Se Ooncha Hamara Nabi

نہیں آئی * میں کہتا ہوں: مجھے رِزْق دینے والا وہی ہے، جو تمام جہان کو رِزْق دیتا ہے، آپ سمجھ جائیں گے، سب کو پالنے والا، سب کا خالِق، سب کا رازِق صِرْف و صِرْف اللہ پاک ہے، کوئی دوسرا ہے ہی نہیں، لہٰذا نام نہ بھی لیا جائے، تب بھی ذِہن ایک ہی طرف جائے گا، پتا چلا؛ جب اِس شان والی ذات ایک ہی ہو تو نام لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی، لہٰذا اللہ پاک نے * حضرت آدم عَلَیْہ ِالسَّلام کی شان ذِکْر کی تو نام لیا * حضرت نُوح عَلَیْہ ِالسَّلام کی شان ذِکْر کی تو نام لیا * حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام کی شان ذِکْر کی تو نام لیا * حضرت موسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام کی شان ذِکْر کی تو نام لیا * حضرت عیسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام کی شان ذِکْر کی تو نام لیا * مگر جب باری آئی، اس ذیشان نبیصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی تو نام نہیں لیا بلکہ فرما دیا:

وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ     (پارہ:3، سورۂ بقرہ:253)

تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند ی عطا فرمائی

گویا یہ بتایا جا رہا ہے کہ سب سے اَفْضَل نبی ایک ہی ہیں، لہٰذا نام نہ بھی لیا جائے تو ذِہن ایک ہی طرف جاتا ہے،سب سمجھ جاتے ہیں کہ بےشُمار اور عظیم الشّان درجات والے نبی حضرت مُحَمَّد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ہیں، وہی سب سے افضل ہیں۔ ([1])

سارے اچھّوں سے اچھّا سمجھئے جسے                                    ہے اُس اچھّے سے اچھّا ہمارا نبی

سارے اُونچوں سے اُونچا سمجھئے جسے                              ہے اُس اُونچے سے اُونچا ہمارا نبی

مُلْکِ کونین میں انبیا تاجدار                                                                                      تاجداروں   کا    آقا    ہمارا   نبی([2])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد

اے مَحْبُوب! آپ کو کیا فضیلت ملی...؟

حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہ عنہ مشہور صحابئ رسول ہیں، آپ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ کسی نے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی خِدْمت میں عرض کیا: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! * اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام سے کلام فرمایا * حضرت عیسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام


 

 



[1]...فتاویٰ رضویہ، جلد:30، صفحہ:151بتصرف۔

[2]...حدائقِ بخشش، صفحہ:139، 140 بتقدم و تاخر۔