Book Name:Rah e Khuda Mein Safar Ke Fazail
مُشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے، مُشک اُٹھانے والا یا تمہیں کچھ دے دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا تم اس سے اچھی خوشبو پالو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلادے گا یا تم اس سے بدبو پاؤ گے۔([1])
سُبْحٰنَ اللہ! کیسی پاکیزہ مثال ہے جس کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ بُروں کی صحبت فائدہ اور اچھوں کی صحبت نقصان کبھی نہیں دے سکتی،بھٹی والے سے مُشک نہیں ملے گا گرمی اور دھواں ہی ملے گا،مُشک والے سے نہ گرمی ملے نہ دھواں بلکہ مُشک یا خوشبو ہی ملے گی۔ اس فرمانِ عالی کا مقصد یہ ہے کہ حتی الامکان بری صحبت سے بچو کہ یہ دین و دنیا برباد کردیتی ہے اور اچھی صحبت اختیار کرو کہ اس سے دین و دنیا سنبھل جاتے ہیں۔([2])
جلال پُور بھٹیاں (ضلع حافِظ آباد، پنجاب پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی کا واقعہ ہے، یہ توبہ سے پہلے گُنَاہوں بھری زندگی گزار رہے تھے، علاقے کے آوارہ اور شرابی نوجوانوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا تھا، لہٰذا خُود بھی شراب اور دیگر گُنَاہوں کے عادِی ہو گئے، گالی گلوچ، چیخ پُکار، لڑائی جھگڑا، مار دھاڑ وغیرہ ان کے معمولات کا حصّہ تھا، غرض گھر والوں کے ساتھ ساتھ اَہْلِ علاقہ بھی ان کی حرکتوں سے بیزار تھے۔
ان کی قسمت کا ستارہ یُوں چمکا کہ ایک مرتبہ کسی اسلامی بھائی کے سمجھانے پر مدنی قافلے کے مُسَافِر بن گئے۔ الحمد للہ! وہاں انہیں نیک صحبت میسر آئی، سنتیں سیکھنے کا موقع نصیب ہوا، خوفِ خُدا اور عشقِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم وغیرہ موضوعات پر بیانات سُننے