Book Name:Rah e Khuda Mein Safar Ke Fazail
وضاحت:جو طیبہ میں مرے اس کے لئے یہ خوشخبری ہے کہ آنکھیں بند کر کے ٹھنڈے ٹھنڈے رستے چلے جاؤ، کیونکہ اس سٹرک میں کوئی پیچ و خم نہیں بلکہ یہ سیدھے شفاعت نگر کو جاتی ہے۔
یہ صحابی رَضِیَ اللہُ عنہ جو مدینے ہی میں پیدا ہوئے، مدینے ہی میں رہے، پِھر مدینے ہی میں انتقال ہوا، پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: کاش! یہ اپنے پیدائش والے شہر میں انتقال نہ کرتے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کاش! یہ مدینے میں نہ مرتے بلکہ عُلَمائے کرام فرماتے ہیں: اس فرمانِ مصطفےٰ کا معنیٰ یہ ہے کہ کاش! ان کی وِلادت کسی دُوسرے شہر میں ہوتی، پِھر یہ وہاں سے راہِ خُدا میں سَفَر کر کے مدینے میں آتے اور مدینے میں انتقال کر جاتے، یُوں ان کی پیدائش کی جگہ سے لے کر مدینے تک کی جو زمین ہوتی، اتنی زمین انہیں جنّت سے عطا کر دی جاتی۔ ([1])
میں جو یُوں مدینے جاتا تَو کچھ اور بات ہوتی کبھی لوٹ کر نہ آتا تو کچھ اور بات ہوتی([2])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
مَشْہُور مُفَسّرِ قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس حدیثِ پاک سے ثابِت ہوا کہ سَفَر کی موت وطن کی موت سے افضل ہے۔([3]) ایک دوسری حدیثِ پاک