Book Name:Ameer Muawiya ke Aala Ausaf
اللہُ اکبر! جوتے کا تسمہ تو دُور کی بات ہمارے ہاں تو ہر ہر بات میں مقابلہ کیا جاتا ہے، *میرا جوتا ایسا ہو کہ لوگ دیکھ کر واہ واہ پُکاریں*میرے کپڑے اعلیٰ ہوں*میرے مکان جیسا مکان کسی کا نہ ہو*میری گاڑی جیسی گاڑی کسی کی نہ ہو، غرض؛ ہر چیز میں مقابلہ (Competition)کیا جاتا ہے اور اس مقابلے سے مقصُود کیا ہوتا ہے؟ حُبِّ جاہ، شہرت، عزّت کہ لوگ مجھے دیکھیں، میری چیزیں دیکھیں تو واہ واہ پُکاریں۔
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں عاجزی اپنا لینی چاہئے۔ اپنے دِل سے پروٹوکول کی طلب نکال دینی چاہئے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ایک مرتبہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم تشریف لائے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم تعظیم کیلئے کھڑے ہو گئے، اس پر فرمایا: اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جیسے عجمی کھڑے ہوا کرتے ہیں کہ ان کے بعض، بعض کی تعظیم کرتے ہیں۔([1])
اس حدیثِ پاک کی تشریح میں مفتی امجد علی اعظمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں جس قیام سے منع کیا گیا ہے، اس کی ایک صُورت یہ ہے کہ آدمی خود پسند کرتا ہو کہ لوگ میرے لئے کھڑےہوں، اگر کوئی کھڑا نہ ہو تو بُرا مانے، یہ ناجائِز ہے۔ ([2])
اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ کاش! دِل سے عزّت طلبی، پروٹوکول کی حِرْص، شہرت اور ناموری کی طلب نکل جائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ۔
یہی تجھ کو دُھن ہے رہوں سب سے بالا ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا