جادو سے حفاظت کے لئے اونٹ کی ہڈی رکھنا کیسا؟ مع دیگر سوالات

دارُالافتاء اہلِ سنّت

*مفتی محمد ہاشم خان عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024

(1)جادو سے حفاظت کے لئے اونٹ کی ہڈی رکھنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ گھر میں اونٹ کی ہڈی رکھنے سے جادو وغیرہ اثر نہیں کرتا تو کیا گھر میں اونٹ کی ہڈی رکھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جادو وغیرہ کے اثر سے بچنے کے لئے گھر میں اونٹ کی ہڈی رکھنا شرعاً جائز ہے،اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں کہ یہ جادو وغیرہ سے حفاظت کا ایک ٹوٹکا ہےاور ہر وہ ٹوٹکا جو شریعتِ مطہرہ سے ٹکراتا نہ ہو،وہ کرنا جائز ہے۔ نیزجس طرح دواؤں میں کسی نقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی محض تجربہ کافی ہوتا ہے اسی طرح ٹوٹکوں میں بھی کسی نقل کی ضرورت نہیں ہوتی، بس اتنا ضرور ہے کہ وہ شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2) جماعتِ فجر کے دوران سنتیں پڑھنے کا حکم

 سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں كہ ایک شخص کہتا ہے کہ جب فجر کی نماز ہورہی ہوتو فجر کی سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں کہ قرآن پاک کی قراءت سننا فرض ہوتاہے۔اس حوالہ سے شریعت کی کیا راہنمائی ہے ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فقہائے کرام نے احادیثِ طیبہ کی روشنی اور صحابۂ کرام کے مبارک عمل سےاس حوالہ سے جو حکم بیان فرمایاہے وہ یہ ہے کہ فجر کی جماعت شروع ہونے کے بعد اگرجانتا ہے سنتیں پڑھنے کے بعد بھی جماعت مل جائے گی تو پہلے سنتیں پڑھے پھر جماعت میں شامل ہومگرسنتوں کے لیے جماعت کی صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں اور اگر اند ر جماعت ہوتی ہو تو صحن میں پڑھے اور صحن میں ہو تواندر پڑھے۔ اور اگر اس مسجد میں اندر باہر دو درجے نہ ہوں تو ستون وغیرہ کی آڑ میں پڑھے کہ اس کے اور صف کے درمیان ستون حائل ہو جائے اورایسی کوئی جگہ نہ ملے تو پھر سنتِ فجر بغیر پڑھے ہی جماعت میں شامل ہوجائے اور اگر سنتوں میں مشغولیت سے فجر کی جماعت فوت ہونے کا گمان ہوتو سنتیں پڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ اسےحکم ہے کہ بغیر سنت پڑھے فوراً جماعت میں شامل ہوجائے۔

فجر کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں اقامت ہوجانے کے بعد اگرچہ یہ معلوم ہو کہ سنت پڑھنے کے بعد بھی جماعت مل جائے گی پھر بھی سنتیں پڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ سنت پڑھے بغیر فوراً ہی جماعت میں شامل ہو جانا ضروری ہے۔

نیز معترض کا یہ کہنا کہ ” جب فجر کی نماز ہورہی ہوتو فجر کی سنتیں نہیں پڑھنی چاہئے کہ قرآنِ پاک کی قراءت سننا فرض ہوتاہے “ بالکل بھی درست نہیں ہے اور ممکن ہےمعترض کو یہ غلط فہمی ہوئی ہو کہ قرآن پاک کی آواز جس تک جائے سب کو سننا فرض ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ قرآنِ پاک کی قراءت کے وقت جو اشخاص سننے کی غرض سے ہوں ان پر سننا لازم ہوتاہےنہ کہ وہ سب جن تک آواز جارہی ہے۔ اور نماز کی جماعت میں مقتدی پر اقتداکی وجہ سے سننا لازم ہوتاہے تو اس کے سننے سے قرآنِ پاک کا یہ حق ادا ہوجاتا ہے لہٰذا بقیہ اشخاص جو مقتدی نہیں ہیں اور سننے کی غرض سے بھی نہیں بیٹھے توان پر سننا لازم نہیں ہوتا۔

اورفقہائے کرام نے جماعت فجر کے دوران صف کے درمیان میں یا صف کے پیچھے بلاحائل سنتیں پڑھنےسے منع کی وجہ جماعت کی خلاف ورزی بتائی ہے نہ کہ وہ جو معترض نے بیان کی کہ قرآن پاک سننا سب پر فرض ہے لہذا اس شخص کا یہ مسئلہ اس تفصیل کے بغیر بیان کرنا جو فقہائے کرام نے بیان کی ہے اوراپنی من مانی توجیہ کے ساتھ بیان کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)تحفہ دے کر واپس لینے کا حکم

 سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی چند سال پہلے ایک جگہ منگنی ہوئی تھی تو منگنی کے بعد وہ اس دوسرے خاندان والوں کو مختلف مواقع، مثلاً عید وغیرہ پر نقدی اور کپڑے وغیرہ اشیاء بطورِ تحائف دیتے رہے اب ان کی منگنی ٹوٹ چکی ہے، تو ان تحفے، تحائف کو واپس لینے کا کیا حکم ہے؟

(نوٹ : سائل نے بتایا کہ تحفے دینے لینے والے دونوں حیات ہیں اورتحائف پر انہوں نے قبضہ بھی کر لیا تھا اور ابھی بعض تحائف ان کے پاس موجود ہیں اور بعض ختم(ہلاک) ہو چکے ہیں،کچھ ملکیت سے نکل چکے ہیں اوربعض تحائف میں اضافہ بھی ہوچکا ہے ۔ اور ان تحائف کا بدل بھی نہیں لیا۔)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

قوانینِ شرع کی رو سےمنگنی کے بعد ایک خاندان والوں کی طرف سے دوسرے خاندان والوں کو دئیے جانے والے تحفے تحائف اور کپڑے وغیرہ ہبہ کے حکم میں ہیں اور ہبہ کا حکم یہ ہوتاہےکہ اگر موانع ہبہ میں سے کوئی مانع نہ پایا جائے، تو قاضی کے فیصلے یاباہمی رضامندی سےواپس لینے کا اگرچہ اختیار ہوتاہے یعنی واپسی درست ہو جائے گی، مگر واپس لینا مکروہ ِتحریمی، ناجائز وگناہ ہے، کہ حدیثِ پاک میں ہبہ دے کر واپس لینےسے منع کیاگیا ہے اور اسے کتے کی طرح قے کرکے پھراسے چاٹنے کی مثل قرار دیا گیا ہے۔اوراگر کوئی مانع پایا جائے مثلاً، دونوں میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے یا اس کا عوض لے لیا یا اس میں کچھ اضافہ ہو گیا یا اس کی ملکیت سے شے نکل گئی یا وہ شے ہلاک ہو گئی یا وہ دونوں میاں بیوی ہوں یا جسے تحفہ دیا وہ اس کا ذی رحم محرم رشتہ دار ہوتو ان چیزوں کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔

اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ زید کی طر ف سے منگنی کے بعد جو چیزیں دوسرے خاندان والوں کو تحفے میں دی گئی تھیں اوران کی طرف سے ان پر قبضہ بھی کر لیا گیا تھا تو ان میں سے فقط ان چیزوں کو واپس لینے کا اختیارہے جو ابھی تک ان کی ملکیت میں موجود ہیں اور ان میں کوئی متصل اضافہ بھی نہیں ہوا ہے، مگر واپس لینا مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے، فلہٰذا اس سے بچنا ہی چاہئے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شیخ الحدیث و مفتی دارُالافتاء اہلسنت لاہور


Share