شرح حدیث رسول
تنگدستوں پر آسانی کرو
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
مسلم شریف میں ہے:خاتَمُ النّبیین جنابِ رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۔ ([i])
لفظی ترجمہ : مَنْ يَسَّرَجو آسانی پیدا کرے ،عَلَى مُعْسِرٍ تنگی والے پر، یَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ آسانی دے گا اللہ اسے، فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ دنیا اور آخرت میں۔
بامحاورہ ترجمہ: جوکسی تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرے گا، اللہ پاک اس کے لئے دنیا اور آخرت میں آسانی پیدا کرے گا۔
شرح حدیث
اس حدیث پاک میں بنیادی طور پر(Basically) دو باتوں کا بیان ہے :
(1) تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرنے کا
(2)آسانی پیدا کرنے والے کو ملنے والے انعام کا
ہم ان دونوں کو الگ الگ تفصیل سے بیان کرتے ہیں؛
تنگ دست (Tight fisted)سے مراد وہ شخص ہے جو قرض کی ادائیگی یا اپنی غریبی وغیرہ کی وجہ سے پریشان ہو، علامہ عبدالرؤف مناوی ،علامہ مُلَّا علی قاری اور دیگر شارِحین رحمۃُ اللہِ علیہم نے تنگ دست میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کو شامل کیا ہے۔([ii])
آسانی پیدا کرنے کی تین صورتیں
آسانی پیدا کرنے کی 3صورتیں ممکن ہیں :
(1)مقروض دو قسم کے ہوسکتے ہیں ،ایک وہ جس نے آپ کا قرضہ دینا ہےاور دوسرا وہ جس نے کسی اور کا قرضہ دینا ہے ۔
اگر اس نے آپ کا قرضہ دینا ہے تو اسے قرض کی ادائیگی کی تاریخ آنے کے باوجود مہلت دے دیجئے،اگر بڑی رقم ہوتو اس کی سہولت کے مطابق قسطوں میں تقسیم کردیجئے ، یا پھر اس کامکمل یا تھوڑا قرض ہی معاف کردیجئے۔([iii])ان کاموں سے مقروض کی زندگی کیسی آسان ہوگی! اور وہ کس طرح ٹینشن فری ہوجائے گا اس کا اندازہ کرنا ہو تو خود کو مقروض کی جگہ رکھ کر دیکھئے ۔
قراٰنی ترغیب
تنگ دست کو مہلت دینے کے بارے میں قراٰنِ کریم میں ہے:
(وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۸۰))
ترجَمۂ کنزالایمان:اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لیے اور بھلاہے اگر جانو۔([iv])
صدرُ الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مُرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:قرضدار اگر تنگ دست یا نادار ہو تو اس کو مہلت دینا یاقرض کا جُزو یا کُل (Component or total) معاف کردینا سبب اجرِ عظیم ہے۔
عرش کا سایہ ملے گا
آپ کو اس عمل کے بدلے میں دیگر فضائل کے ساتھ ساتھ میدانِ محشر کی تپتی دھوپ میں کیسی راحت ملے گی !اس کے لئے یہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھ لیجئے: جو کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کاقرض مُعاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن عَرْش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا کہ جس دن عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔([v])
مقروض پر نرمی کرنے والا بخشا گیا
رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ایک شخص نے کبھی کوئی نیک کام نہ کیا تھا، البتہ! وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا اور اپنے نوکروں سے کہا کرتا:’’ مقروض کے لئے جتنا قرضہ ادا کرنا آسان ہو اتنا لے لینا اور جتنا ادا کرنا مشکل ہو اتنا چھوڑ دینا، اے کاش! ہمارا ربّ بھی ہم سے درگزر فرمائے۔“ جب اس کا اِنتقال ہوگیا تو اللہ پاک نے دریافت فرمایا:کیا تو نے کبھی کوئی نیکی بھی کی؟ اس نے عرض کی:نہیں، البتہ! میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور جب اپنے خادِم کو قرض کی وصولی کے لئے بھیجتا تو اسے کہا کرتا تھا کہ جتنا آسان ہو اتنا لے لینا جتنا مشکل ہو اتنا چھوڑ دینا، ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک ہم سے بھی درگزر فرمائے۔“ تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:” میں نے تمہیں بخش دیا۔“([vi])
سارا قرض معاف کر دیا
حضرت سیِّدُنا شقیق بلخی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک شخص آپ کو دیکھ کر چھپ گیا اور دوسرا راستہ اختیار کیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اسے پکارا، وہ آیا تو پوچھا کہ تم نے راستہ کیوں بدل دیا؟ اور کیوں چھپ گئے؟ اس نے عرض کی: ”میں آپ کا مقروض ہوں، میں نے آپ کو دس ہزار درہم دینے ہیں جس کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اور میں تنگدست ہوں، آپ سے شرماتا ہوں۔“ امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: ”سُبْحٰنَ اللہ! میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہے، جاؤ! میں نے سارا قرض تمہیں معاف کر دیا۔ میں نے اپنے آپ کو اپنے نفس پر گواہ کیا۔ اب آئندہ مجھ سے نہ چھپنا،اور سنو جو خوف تمہارے دل میں میری وجہ سے پیدا ہوا مجھے وہ بھی معاف کر دو۔“([vii])
قارئین ! دوسری قسم کا مقروض(Debtor) وہ ہے جس نے کسی اور کا قرضہ دینا ہے،ایسے میں آپ اسے یوں آسانی دے سکتے ہیں کہ اس کا قرض مکمل یا کچھ حصہ ادا کردیجئے(جیسے محلے کی پرچون یا دودھ دہی کی دکان سےاس کا کھاتہ معلوم کرکے کلئیر کروا دیجئے)یا قرض خواہ (قرض وصول کرنے والے)سے اس کی قسطیں بنوا کر ادائیگی اپنے ذمہ لے لیجئے اگر آپ ان میں سے کچھ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم قرض خواہ سے مقروض کے لئے ان آسانیوں کی فراہمی کی سفارش ہی کردیجئے۔([viii])
(2)غریب کو آسانی یوں فراہم کی جاسکتی ہے کہ اس کی غربت کا سبب دور کردیا جائےمثلاً وہ بے روزگار ہے تو اسے جاب دلا دیجئے، اس کی صلاحیت(Ability) کے مطابق چھوٹا موٹا کاروبار ، پھلوں کا ٹھیلا یا برگر یا چپس کیبن وغیرہ شروع کروا دیجئے تاکہ اسے فوری ریلیف ملے،آپ کی ذرا سی توجہ اسے غربت سے نکلنے میں مدد دے سکتی ہے ۔
(3)سیلاب یا زلزلے یا آگ لگنے کے سبب پریشان حالوں کو پریشانی یا دشواری سے نکلنے کے لئے کسی سہارے کی تلاش ہوتی ہے ،اگر آپ حسبِ حیثیت ایسوں کا سہارا بن جائیں گے تو اِن شآءَ اللہ دنیا و آخرت کی ڈھیروں بھلائیاں آپ کا مقدر ہوں گی۔
FGRF
رفاہی و فلاحی کاموں کے لئے دعوتِ اسلامی کا ایک ڈیپارٹمنٹ ”FGRF“ ہے جس کی ماہر ٹیم بیماری، غربت، بےروزگاری، قدرتی آفات اور بحرانوں سے نجات دلانے کے لئے سرگرمِ عمل ہے۔ FGRF کا وسیع نیٹ ورک 65 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ بھی FGRF کے کاموں میں مالی وعملی سپورٹ کرکے آسانی فراہم کرنے کا ثواب کما سکتے ہیں۔
FGRF کی خدمات کی تفصیل دعوت اسلامی کی ویب سائٹ dawateislami.netپر دیکھی جاسکتی ہیں۔
آسانی پیدا کرنے والے کو ملنے والاانعام
(Reward to the Facilitator)
مضمون کے آغاز میں لکھی گئی حدیث پاک میں آسانی پیدا کرنے والے کا انعام یہ بیان ہوا کہ اللہ پاک دنیا اورآخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا کرے گا۔ کیا کیا آسانی مل سکتی ہے؟ اس کا بیان امام مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے کیا کہ دنیا میں اس کا رزق وسیع ہو جائے گا ، مشکلات میں اس کی حفاظت ہوگی اور اسے نیک کاموں میں مدد ملے گی اور آخرت میں اس کا حساب آسان ہوگا،عذاب سے نجات کی خوشخبری ملے گی ، ان کے علاوہ بھی ان شآء اللہ وہ کئی قسم کے شرف پائے گا۔([ix])
آخری بات اس فرمانِ رسول پر عمل کرنے کے لئے ہمیں شاید مشقت زیادہ نہ اٹھانی پڑےلیکن انعام بہت بڑا ہے، اس لئے آج اور ابھی سے عمل شروع کردینا چاہئے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے شاید کوئی تنگ دست آسانی چاہتا ہو ،آپ اسے آسانی دے کر اس فضیلت کو حاصل کیجئے ۔ اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* استاذ المدرسین مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments