اسلاف کے قلم سے
نفس و شیطان سے ہوشیار رہیں
*حضرت علامہ نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
رئیسُ المتکلمین حضرت علّامہ مولانا مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ امامِ اہل ِسنّت،اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے والدِ گرامی اور ایک عظیم عِلمی و روحانی شخصیت ہیں۔ اہلِ عِلم آپ کو رئیسُ المتکلمین اور رئیسُ الاَتْقِیا کے القابات سے یاد کرتے ہیں۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 1246ھ جُمادَی الاُخریٰ کی آخِری یا رَجَبُ المُرَجَّب کی پہلی تاریخ کو بریلی شریف میں ہوئی۔ ساری تعلیم اپنے والدِ ماجد مولانا رضا علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ سے حاصل کی جو اپنے زمانے کے زبردست عالمِ دین تھے۔ ([i])آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے سیرت، عقائد، اعمال اور تصوّف وغیرہ کے موضوع پر شاندار کُتُب تحریر فرمائیں۔ آپ کی تقریباً 26تصانیف کے نام ملتے ہیں۔ الحمدُلِلّٰہ اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ دعوتِ اسلامی سے بھی ان کی 2 کتب تحقیقی کام کے بعد شائع کی جاچکی ہیں: (1)اَحْسَنُ الوِعَاء لِآدَابِ الدُّعَاء (2)فَضْلُ العِلْمِ وَالعُلَمَاء
آپ نے ذوالقعدۃ الحرام 1297ھ بمطابق 1880ء بروز جمعرات 51برس، 5ماہ کی عمر میں وصال فرمایا اور والدِ محترم کے پہلو میں دَفْن ہوئے۔([ii])
آپ کی کتب میں دنیا کی مذمت، نفس کی مذمت و اصلاح، اخلاقی تربیت اور عشقِ رسول کی کثیر ترغیبات ملتی ہیں۔ آپ کی فکری اور اصلاحی ترغیبات کی اہمیت کے پیشِ نظر آپ کی عظیم کتاب”سُرورُالقُلوب فِی ذِکرِ المحبوب“ میں سے نفس کی مذمت اور اصلاح کے متعلق انتہائی مفید اور قابلِ فکر کلام کا منتخب حصہ ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“کے مضمون کے طور پر شامل کیا جارہا ہے۔
شیطان کا فریب
اول شیطان بندے کو عبادت سے منع کرتا ہے، جب بندہ کہتا ہے: دنیا فانی ہے اور سفرِ دراز در پیش ہے، بے توشہ وزاد کس طرح قطع ہوگا؟ ([iii])
تَو(شیطان) کہتا ہے: جلدی کیا ضرور ہے ابھی عمر بہت ہے، عبادت کر لینا۔
جب بندہ کہتا ہے: موت میرے اختیار میں نہیں اور وقت اس کا معلوم نہیں، شاید ابھی مر جاؤں اور حسرت عبادت کی گور( قبر) میں لے جاؤں!
تو (شیطان) کہتا ہے: عبادت میں جلدی کر کہ نامۂ اعمال میں نیکیاں زیادہ ہو جائیں(یعنی جلدی بازی سے کام لے)۔
جب بندہ کہتا ہے: دو رکعت نماز خشوع و خضوع و قرار و سکون کے ساتھ بہت رکعتوں سے جو جلدی پڑھی جائیں بہتر ہے۔
(شیطان) کہتا ہے: نماز اچھی طرح ادا کر دیکھنے والے تجھے سمجھیں۔
جب بندہ کہتا ہے: مجھے خدا سے کام ہے اس کی عبادت اوروں کے دکھانے کے لئے کرنا نِری بے حیائی ہے۔
(شیطان مزید فریب دیتے ہوئے) کہتا ہے: اگرچہ تجھے خلق سے کچھ کام نہیں، مگر وہ خود ظاہر کرے گا اور لوگوں کے دل میں تیری قدر و منزلت بڑھائے گا۔
جب بندہ کہتا ہے: دنیا کی قدر و منزلت بیکار ہے مجھے عزت آخرت کی درکار ہے۔
تو(شیطان) کہتا ہے: اس قدر مشقت نہ کر اگر ازل([iv]) میں تجھے بہشتی کیا، عبادت کی کیا حاجت اور جو دوزخی کیا تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
بندہ کہتا ہے کہ عبادت و ریاضت میرے حق میں بہر حال مفید ہے اگر بہشتی ہوں تو مرتبہ بڑھے گا اور خدا نخواستہ دوزخی ہوں تو عذاب کم ہوگا اس لئے کہ خدا محنت کسی کی رائیگاں نہیں کرتا۔
اس وقت شیطان لاچار ہوجاتا ہے اور نفس سے کہ اُس کا استاد ہے، مدد چاہتا ہے کہ اسے عُجب([v]) کی گھاٹی میں ہلاک کرے۔ انسان کو چاہیے کہ جس وقت یہ سرکش(نفس) اِترائے (تو اُسے)کہے: اے نفس! تیری نماز اگرچہ لاکھ اخلاص کے ساتھ ہواس سے زیادہ نہیں جیسے کوئی مفلس نادار مٹھی بھر جَو بادشاہ کے حضور بھیجے، خدائے تعالیٰ تیرے اس حقیر تحفے کی پرواہ نہیں رکھتا۔ وَ مَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا یَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖؕ- ([vi])
نفس کی تادیب کرو!
عامر بن قیس ہر روز ہزار رکعت پڑھتے، بستر پر آتے، فرماتے: اے نفس ! خدا کی قسم میں تجھ سے نا خوش ہوں کہ تو خدا کی عبادت میں کاہلی کرتا ہے؟([vii])
ابن سماک اکثر فرمایا کرتے: اے نفس! تُو زاہدوں کی سی باتیں کرتا ہے اور منافقوں کے کام، بہشتی اور لوگ ہیں اور عمل ان کے اور طرح کے ہوتے ہیں۔([viii])
(اے بندے) پس تو بھی اپنے نفس کی تہذیب و تادیب کی طرف متوجہ ہو اوراس سے کہہ اے نفس! اگر سپاہی بادشاہ کا کسی کو پکڑنے آئے اور وہ کھیل میں مشغول رہے اس سے زیادہ احمق کون ہے؟ غور سے دیکھ کہ لشکر مُردوں کا دروازۂ شہر پر بیٹھا ہے اور عہد کرتے ہیں کہ جب تک تجھے ساتھ نہ لیں گے ہرگز نہ اٹھیں گے اور بہشت و دوزخ تیرے لئے تیار ہے اور موت کا وقت معلوم نہیں، ناگاہ(اچانک) سر پر آجائے گی اور جو سامان تیار نہ ہو گاتو دل میں حسرت رہ جائے گی۔
اے نفس! اگر تیرا غلام یا نوکر تیری نافرمانی کرے تو کس قدر ناگوار ہوتا ہے اور تو اپنے آقا کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے غضب سے نہیں ڈرتا کیا اس کے عذاب کی تجھے طاقت ہے؟ ذرا چراغ پر انگلی رکھ یا دھوپ میں بیٹھ کر غور کرکہ تحمل دوزخ کی آگ کا ہوسکے گا یا نہیں؟ (یعنی غور کر کہ دوزخ کی آگ برداشت ہوسکے گی یا نہیں؟)
اے نفس! طبیب کے کہنے سے سب خواہشیں ترک کر دیتا ہے اور فقیری کے خوف سے تحصیل معاش میں ہزار رنج و تکلیف اٹھاتا ہے کیا تیرے نزدیک دوزخ بیماری اور دنیا کی محتاجی سے زیادہ سخت نہیں؟
اے نفس! اگر تُو خدا کی تقسیم پر راضی ہے تو قناعت کر اور جو راضی نہیں تو اس کا رزق مت لے، اور رازِق ڈھونڈ اگر ڈھونڈ سکے۔
اے نفس! خدا جس بات کو منع کرے، مت کر اور جو حکم دے، بجا لا، ورنہ اس کے ملک سے نکل جا اگر نکل سکے، اس کے ملک میں رہنا اور اس کی نافرمانی کرنا بڑی نادانی ہے۔
اے نفس! گناہ سب سے چھپا کر کرتا ہے اگر کوئی تیری پیٹھ کے پیچھے پنکھا جھلے تو ہرگز تجھ سے مباشرت(ہمبستری) اور چوری نہ ہوسکے اور غور سے دیکھ! ان درختوں کو کون ہلاتا ہے؟ اورتُو کس کے سامنے گناہ کرتاہے؟
اے نفس! اگر تو سمجھتا ہے کہ خدا نے تجھے عبث(فضول) پیدا کیا ہے تو منکرِ قراٰن ہے(کیونکہ رب کا فرمان ہے): اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) ([ix])
(ترجَمۂ کنزالایمان: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں)
اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًىؕ(۳۶)([x])
(ترجَمۂ کنزالایمان: کیا آدمی اس گھمنڈ میں ہے کہ آزاد چھوڑ دیا جائے گا)
اے نفس! تو دو حرف سیکھ کر ایسا مغرور ہوا کہ دونوں عالَم میں نہیں سماتا، دستار خواجگی(یعنی سرداری کی پگڑی) سر پر رکھ کر خلقِ خدا کو حقیر سمجھتا ہے اور کسی کو شہر میں گفتگو کرنے کے قابل نہیں جانتا، سبب اس کا یہ ہے کہ تونے منطق و حکمت اور جدل و بحث میں عمرِ عزیز اپنی ضائع کی، علمِ دین سے بے بہرہ رہا اور یہ نہ سمجھا کہ یہ علوم بقدرضرورت جائز اور حاجت سے زیادہ حرام اور حرام کو کمال سمجھنا بڑی نادانی ہے۔
اے نفس ! اگر تو نے علمِ دین حاصل بھی کیا تو اس میں فکر نہ کی اگر فکر کرتا تو اپنی حقیقت سے واقف ہوتا اور اپنے عمل پر ناز نہ کرتا کہ یہ علم و عمل خدا کی عنایت ہے نہ تیری استعدادو لیاقت اور بالفرض اگر تیری استعداد و لیاقت کو کچھ دخل ہو تو وہ بھی اسی کی عنایت سے ہے۔
اےنفس! جوتیرا عیب ظاہر کرے اس کا دشمن ہوتا ہے، اگر اسے عیب سمجھتا ہے چھوڑ کیوں نہیں دیتا، رات دن شیطان کی غلامی کرتا ہے اور دعویٰ خدا کی بندگی کا رکھتا ہے، عبادت و ریاضت اس لئے کرتا ہے کہ پگڑی خواجگی اور پارسائی کی تیرے سر پر باندھیں (یعنی سرداری و پاکیزگی عطا کریں) اور وظائف اس لئے پڑھتا ہے کہ فراغت دنیا کی تجھے حاصل ہو، تسبیح و مرقع اس لئے ہے کہ لوگ تیرے معتقد ہوں اورپلاؤ و زردہ کھانے میں آئے۔
اے نفس! توبہ کیوں نہیں کرتا؟ ہمیشہ کل پر ڈالتا ہے ناگہاں موت آجائے گی اور حسرت و ندامت دل میں رہ جائے گی، کل توبہ آج سے آسان نہ ہوگی بلکہ جس قدر درختِ گناہ کی جڑ زیادہ دن رہے گی، زیادہ مضبوط ہوتی جائے گی، جب کل، آج سے سخت تر دیکھے گا دوسرے دن پر ٹالے گا اس طرح کام تمام ہو جائے گا اور انجام خراب۔
اے نفس! جوانی میں بڑھاپے سے پہلے اور بڑھاپے میں مرنے سے آگے عبادت نہیں کرتا اور جاڑے(سردی) سے سامان گرمی اور گرمی سے سامان جاڑے کا درست کرتا ہے کیا دوزخ کی زمہریرکو اس سردی اور اس کی آگ کو اس گرمی سے بھی کم جانتا ہے؟
اے نفس! اگر تمام دنیا تجھے بےمزاحمت دیں اور سب عالَم تیرا محکوم ہو جائے، آخر کار چھوڑنا پڑے اور دو گز زمین اور چار گز کفن سے زیادہ ہاتھ نہ آئے، ایسی بےوفا کے لئے آخرت کو کہ دائم باقی ہے برباد کرتا ہے اور سونے کے بدلے ٹھیکرے خریدتا ہے اور دوسروں کی نادانی پر ہنستا ہے پہلے آپ کو سنوار پھر اوروں کو راہ پر لا کہ ثواب علم وعمل و تعلیم و ہدایت کا ہاتھ آئے اور نام تیرا علمائے دین میں لکھا جائے لیکن اس جگہ ایک اور امر قابلِ بیان کے ہے کہ عالمِ دین ہر چند بے عمل ہو عوام کو چاہیے کہ اس کی نصیحت پر عمل کریں اور اسے اپنا مربّی اور مرشد سمجھیں اور تعظیم اور توقیر اس کی بجالائیں اور وجود اس کا غنیمت جانیں کہ وہ اپنی راہ میں کانٹے بوتا ہے لیکن انہیں راہِ راست بتاتا ہے، مثال اس کی مانند ِچراغ کے ہے کہ آپ جلتا اور اوروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
([iii]):یعنی دنیا فانی ہے اوراخروی زندگی کا سفر نہ ختم ہونے والا ہے، جو کہ نیک اعمال کے بغیر بہت مشکل ہے۔
Comments