اسلام کی مفتیہ مع دیگر سوالات

مدنی مذاکرے کے سوال جواب

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024

(1)پالتو جانور دیکھ بھال میں کوتاہی کی وجہ سے مرجائے تو؟

سُوال: اگر پالتو پرندے یا جانور دیکھ بھال میں کوتاہی کی وجہ سے مرجائیں تو ان کا کیا کفارہ ہوگا؟

جواب: دیکھ بھال میں کوتاہی کرنے والا گناہ گار ہوگا کہ اُس نے ان پر ظلم کیا ہے، لہٰذا اُسے چاہئے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے، اُس پر کفارہ نہیں ہے۔(مدنی مذاکرہ، 20ربیع الآخر شریف 1445ھ)

(2)نماز میں ہنسی آجائے تو کیا کریں؟

سُوال: نماز میں جب کوئی خیال آئے یا ایسی کیفیت بن جائے جس سے انسان ہنسنے پر مجبور ہوجائے اور ہنسی کنڑول نہیں ہورہی ہو تو کیا اس صورت میں نماز توڑسکتے ہیں؟

جواب: نماز توڑنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ہنسی روکنے کی تاکید ہے کہ ہنسی روکے۔ اگر بالغ کو جاگتے میں رکوع سجدے والی نماز میں اتنی آواز سے ہنسی آ گئی کہ آس پاس والے سُنیں تو وُضو بھی ٹوٹا اور نماز بھی ٹوٹ گئی۔(1)

(دیکھئے: بہار شریعت، 1/308- مدنی مذاکرہ، 30جُمادَی الاُخریٰ 1444ھ)

(3)اسلام کی مفتیہ

سُوال:کیا اسلامی بہنیں مفتیہ بن سکتی ہیں، کیا اسلام میں کوئی مفتیہ ہے؟

جواب: جی ہاں! بالکل بن سکتی ہیں، اور اسلام میں  اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا بہت زبردست مفتیہ تھیں۔ اسلامی بہنوں کو بھی مفتیہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے، نہ بھی بَن پائیں تو علمِ دین بہت سارا حاصل ہوجائے گا۔ دعوتِ اسلامی کے تحت چلنے والے جامعۃُ المدینہ (گرلز) میں بھی اسلامی بہنوں کو تخصص فی الفقہ (یعنی  مفتیہ کورس) کروایا جاتا ہے۔

(مدنی مذاکرہ، 13رجب شریف 1444ھ)

(4)کیا پچھلی امّتوں سے قبر کے سوالات ہوتے تھے؟

سُوال:کیا پچھلی امتوں میں بھی قبر کے سوالات ہوتے تھے، اگر ہوتے تھے تو کون کون سے سوالات ہوتے تھے؟

جواب: پچھلی امتوں کے متعلق قبر کے سوالات کے بارے میں علما کا اختِلاف ہے، فتاویٰ فقیہ مِلّت، جلد1، صفحہ نمبر280 پر ہے: اگلی امتوں سے سوالِ قبر کے بارے میں اختِلاف ہے، علّامہ اِبنِ عابدین رحمۃُ اللہِ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں سے قبر میں سوال ہوتا ہی نہ تھا جیساکہ رد المحتار، جلد1، صفحہ نمبر572پر لکھا ہے:اَنَّ الرَّاجِحَ اَيْضًا اِخْتِصَاصُ السُّؤَالِ بِهَذِهِ الْاُمَّةِ یعنی راجح (یعنی زیادہ مضبوط) بات یہ ہے کہ سوالاتِ قبر بھی اس اُمّت(یعنی اُمّتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی خصوصیات میں سے ہے۔

بعض علماء کے نزدیک اگلی امتوں سے قبر میں رب کی وحدانیت (یعنی اللہ پاک کے ایک ہونے) کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا۔

(مدنی مذاکرہ، 13رجب شریف 1444ھ)

(1) بہارِ شریعت میں ہے: اگر اتنی آواز سے ہنسا کہ خود اس نے سنا، پاس والوں نے نہ سنا تو وُضو نہیں جائے گا نماز جاتی رہے گی۔اگر مسکرایا کہ دانت نکلے آواز باِلکل نہیں نکلی تو اس سے نہ نماز جائے نہ وُضو۔(بہار شریعت، 1/308، 309)

(5)قبر پر پودا لگانا کیسا؟

سُوال:قبر پر پودا لگانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: قبر پر چھوٹے چھوٹے پودے لگائے جاسکتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے قبر کو توڑا نہیں جائے، اِن شآءَ اللہُ الکریم اچھی نیت سے لگائیں گے تو ثواب ملے گا، نیت یہ ہو کہ اس سے میّت کا دل بہلے گا کیونکہ تَر گھاس اللہ پاک کی پاکی بیان کرتی ہے جس سے میت کے عذاب میں کمی آتی ہے اور اس کا دل بہلتا ہے۔(مدنی مذاکرہ، 13رجب شریف 1444ھ)

(6)اپنے مرحومین کی قبروں پر پیالے رکھنا کیسا؟

سُوال: بعض لوگوں نے اپنے مرحومین کی قبروں پر پیالے رکھے ہوتے ہیں جس میں وہ پانی ڈال دیتے ہیں کہ  پرندے وغیرہ پانی پئیں گے تو اس کا ثواب  میت کو پہنچے گا۔ کیا یہ تصور دُرست ہے  اور کیا واقعی اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے؟

جواب: حدیث پاک میں ہے کہ ہر تَر جگر میں اَجر ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث:6009) یعنی پرندوں کو بھی پانی پلانا، دانے کھلانا ثواب کا کام ہے، لیکن قبر کے اوپر پیالہ وغیرہ نہ رکھا جائے بلکہ قبر سے ہٹ کر پیالہ وغیرہ بنایا جائے اور اس کی دیکھ بھال بھی ہوتی رہے، اس میں پانی ڈلتا رہے اور پرندے پیتے رہیں تو یوں ایصالِ ثواب کی صورت بنے گی جبکہ ایصالِ ثواب کی نیّت کی گئی ہو۔

(مدنی مذاکرہ، 13رجب شریف 1444ھ)

(7)مقیم امام کے پیچھے مسافر قصر نماز پڑھے گا یا پوری؟

سُوال:مسافر مقیم امام کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھ رہا ہو اور مسافر کی دو رکعتیں نکل جائیں تو پھر وہ قصر پڑھے گا یا پوری چار پڑھے گا؟

جواب: اگر کوئی مسافر، مقیم امام کے پیچھے چار رکعت فرض پڑھتا ہے تو اب اس کو پوری چار رکعت ہی پڑھنی ہوگی، اگرچہ دو رکعتیں نکل گئی ہوں، پوری چار ہی پڑھیں گے۔(مدنی مذاکرہ، 13رجب شریف 1444ھ)

(8)آستین سے منہ صاف کرنا کیسا؟

سوال: وُضو کرنے کے بعد آستین سے پانی صاف کرنا کیسا ہے؟

جواب: بدن پر پہنے ہوئے کپڑوں سے وضو کا پانى صاف کرنا ىا وىسے ہى ہاتھ منہ پونچھنا، مناسب نہىں ہے، ایسا کرنے سے حافظہ کمزور ہوتا ہے۔(الکشف والبیان، ص31) البتہ یہ شرعاً گناہ نہیں ہے۔(مدنی مذاکرہ، 15جُمادَی الاُخریٰ1445ھ)


Share