امیرِ اہلِ سنت کا اوّلین مدنی قافلہ اور ”نیکی کی دعوت“ کی تحریر
*مولانا صفدر علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
اَلحمدُلِلّٰہ دعوتِ اسلامی شروع دن سے ہی اصلاحِ امت کے عظیم جذبے کے تحت تبلیغِ دین کا کام کرتی آرہی ہے اور دنیا کے کونے کونے میں مدنی قافلوں کے ذریعے معاشرے کے بگڑے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لارہی ہے۔دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور میں بھی مدنی قافلے سفر کرتے تھے، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ دعوتِ اسلامی کے سب سے پہلے قافلے کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”جب مدنی قافلہ شروع ہوا تو اُس وقت مدنی قافلے کی اصطلاح نہیں تھی بلکہ ہم اسے ”دورہ“ کہتے تھے۔ سب سے پہلے حاجی بقیع رضا نے چار دِن کا قافلہ تیار کیا تھا اور میں پہلی بار اُن کے ساتھ قافلے میں (سندھ کے ایک گاؤں) گُجو (Gujjo) ضلع ٹھٹھہ گیا تھا، گُجو میں دعوتِ اسلامی تو پہلے ہی متعارف ہوچکی تھی لیکن میں نے اسلامی بھائیوں سے کہا کہ یہاں نہ تو کسی سے میرا تعارف کروانا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا انداز اختیار کرنا ہے جس سے انہیں پتا چلے کہ میں الیاس قادری ہوں کیونکہ اگر لوگ مجھے پہچان لیں گے تو پھر ہم جدول نہیں چلا سکیں گے۔“
ایک دلچسپ واقعہ
اس مدنی قافلے میں ایک کلین شیوڈ نوجوان ملے، وہ کہنے لگے کہ میں نے اجتماع میں (کراچی) آنا ہے اور الیاس قادری سے ملنا ہے۔ اُن سے ملنا بہت مشکل ہوتا ہے، بڑی بھیڑ ہوتی ہے۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی ہنسی دبا کر اُس کی بات سُنتا رہا لیکن آخر تک اُسے یہ نہیں بتایا کہ تم جس سے ملنے وہاں (کراچی)جانا چاہتے ہو اُس سے یہیں مل چکے ہو۔
مدنی قافلے کے آخری روز عشا کی نماز کے بعد میرا بیان تھا جس میں شاید چار آدمی اور تین بچے تھے یعنی ٹوٹل سات افراد تھے۔ بیان کے دوران ایک شخص نے مجھے گھڑی دکھا کر اشارہ کیا کہ مولانا بہت ٹائم ہوگیا ہے۔ بالآخر ہمارے جانے کے بعد گُجو میں اس بات کی شہرت ہوئی کہ یہاں الیاس قادری آیا تھا اور چار دن ہمارے ساتھ رہ کر چلا بھی گیا۔ پھر یہ لوگ سوزوکی بھر کر مجھ سے ملنے یہاں (کراچی) آئے تھے۔
رکنِ شوریٰ حاجی محمد علی ایک دوسرے مدنی قافلے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 1993ء میں ٹھٹھہ کے قریب غلامُ اللہ نامی گوٹھ میں ہمارا مدنی قافلہ گیا تھا، یہ قافلہ شہید مسجد (کھارا در، کراچی) سے نمازِ فجر کے بعد روانہ ہوا، حاجی بقیع اس کے امیرِ قافلہ تھے اور شُرکا میں امیرِ اہلِ سنّت، باپو شریف (سیّد عبد القادر صاحب) اور الحاج گُل احمد قادری صاحب بھی تھے۔ صبح تربیت کے بعد ہم ”شہید مسجد“ سے ”لی مارکیٹ“ پہنچے جہاں سے ایک نارمل لوکل بس چلتی تھی جس میں بیٹھ کر ہم ٹھٹھہ روانہ ہوئے۔ ٹھٹھہ سے قافلے کے تقریباً 17شُرکا ایک کھلی سوزوکی میں بیٹھ گئے۔ گرمی کا موسم تھا اور دھوپ تیز تھی ہم نے امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کو آگے بٹھانا چاہا تو آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ میں اسلامی بھائیوں کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔ دھوپ کی وجہ سے ایک اسلامی بھائی نے چادر اوپر کرکے امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ پر سایہ کردیا تھا۔
ہم جس مسجد میں پہنچے وہ ایک گاؤں میں تھی اور مسجد کا ماحول ایسا تھا کہ جگہ جگہ کبوتروں کے پَر تھے۔ یہاں ہم نے وہ منظر بھی دیکھا کہ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ مسجد کی صفائی کررہے تھے اور مختلف معاملات میں امیرِ قافلہ کی اطاعت کررہے تھے، اسی قافلے میں نیکی کی دعوت بھی لکھی گئی۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ ہمارے ساتھ علاقائی دورے میں شامل ہوتے اور عشا کے بعد بھی انفرادی کوشش کرکے نماز سے رہ جانے والے لوگوں کو مسجد میں لاتے۔
یااللہ ان کے دل بھی اپنی بارگاہ میں جھکالے
ایک دن یوں ہوا کہ (باہر سے آنے والے) جوانوں نے وُضو کیا اور آپ انہیں نماز کا طریقہ سکھانے لگے تو فرمایا: ہم نے نماز کا طریقہ تو سیکھنا ہی ہے ابھی عشا کا وقت چل رہا ہے لہٰذا جس نے ابھی تک عشا کی نماز نہیں پڑھی وہ نماز پڑھ لیں۔ جب وہ نماز پڑھنے کے لئے سجدے میں گئے تو امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیئے کہ یا اللہ ان کے جسم تو جھک گئے ہیں اب تو ان کے دلوں کو بھی اپنی بارگاہ میں جھکالے۔ جب یہ قافلہ وہاں سے واپس آیا تو شہید مسجد کھارادر میں باقاعدہ نیکی کی دعوت کا پریکٹیکل کیا گیا اور باہر نکل کر علاقائی دورہ کرکے لوگوں کو نیکی کی دعوت دی گئی۔ اُس وقت یہ ایک نئی چیز تھی جسے لوگ بڑی حیرت سے دیکھ اور سُن رہے تھے۔(دلوں کی راحت، قسط 27)
نیکی کی دعوت کب لکھی گئی
اس بارے میں امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں کہ نیکی کی دعوت 1993ء میں اسی قافلے کے دوران لکھی گئی۔ ہم چند دوست تھے اور ہم نے سوچا کہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، اُس وقت شاید”نیکی کی دعوت“ کی اصطلاح تو بن چکی تھی لیکن سُوال یہ تھا کہ ہم لوگوں کے پاس جا کر کیا بولیں گے؟ باہمی مشورے سے طے پایا کہ کچھ ایسا بولیں جسے سننے والا اگر ہمارے ساتھ نہ بھی آئے تو کم از کم اسے ہمارا نیکی کی دعوت کا پیغام پہنچ جائے۔ اب کسی نے کہا یوں لکھیں تو کسی نے کہا یوں ہونا چاہئے۔ بالآخر میں نے سوچ بچار اور غوروفکر کے بعد ”نیکی کی دعوت“ لکھی اور یوں نیکی کی دعوت کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ نیکی کی دعوت بہت طویل تھی اور الفاظ بھی مشکل تھے، بعد میں اُسے آسان کرکے چند سطروں میں کردیا تھا۔(دلوں کی راحت، قسط 27)
نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطّاری نے امیر ِاہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی موجودگی میں فرمایا کہ میں 1991ء میں دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوا اور مجھے یاد آرہا ہے کہ 1993ء کے آس پاس آپ نے مجھے ایک پیپر دیا تھا کہ اس کی فوٹو کاپیاں کروائیں۔ اس میں گرین پین (سبز قلم) سے نیکی کی دعوت لکھی ہوئی تھی جسے سب سے پہلے گلستانِ مصطفےٰ کے سفیان بھائی نے یاد کیا تھا۔
(دلوں کی راحت، قسط 27)
نیکی کی دعوت (مختصر)
فِی الوقت جو نیکی کی دعوت دی جاتی ہے وہ یہ ہے:
ہم اللہ پاک کے گناہ گار بندے اور اس کے پیارے حبیب صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے غلام ہیں۔ یقیناً زِندَگی مختصر ہے، ہم ہر وَقْت موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں جَلْد ہی اندھیری قَبْر میں اُتار دیا جائے گا۔ نَجات اللہ پاک کا حُکْم ماننے اور رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سُنّتوں پر عمل کرنے میں ہے۔
عاشِقانِ رسول کی دینی تحریک، ”دعوتِ اسلامی“ کا ایک مَدَنی قافلہ۔۔۔۔۔ سے آپ کے علاقے کی۔۔۔۔۔ مسجِد میں آیا ہوا ہے۔ ہم ”نیکی کی دعوت“ دینے کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ مسجِد میں ابھی دَرْس جاری ہے، دَرْس میں شِرْکت کرنے کے لئے مہربانی فرما کر ابھی تشریف لے چلئے، ہم آپ کو لینے کے لئے آئے ہیں، آیئے! تشریف لے چلئے! (اگر وہ تیّار نہ ہوں تو کہیں کہ) اگر ابھی نہیں آسکتے تو نَمازِ مَغْرِب وہیں ادا فرما لیجئے۔ نَماز کے بعد اِنْ شَآءَ اللہُ الکریم سُنّتوں بھرا بیان ہوگا۔ آپ سے دَرْخواسْت ہے کہ بیان ضَرور سنئے گا۔ اللہ پاک ہمیں اور آپ کو دونوں جہانوں کی بھلائیاں نصیب فرمائے، اٰمِین۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ دینی کاموں کی تحریرات، المدینۃ العلمیہ فیصل آباد
Comments