باتیں میرے حضور کی
وہ نبیوں میں اُمّی لقب پانے والا
*مولانا عاطف حسین عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو مختلف معجزات، کمالات اور خصوصیات سے نوازا ، جبکہ حضور خاتَمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جامعُ الصفات و المعجزات بنایا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ کریم نے ایسی کئی خوبیاں اور خاصیتیں عطا فرمائیں جو پہلے کسی نبی و رسول کو عطا نہ ہوئیں، انہی خصائص میں سے آپ کا ایک عظیم لقب ”اُمّی“ بھی ہے۔ اللہ کریم نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاو رسل بھیجے، انہیں علم دیا، انہیں سکھایا ، پڑھایا، انہیں علم کے اعتبار سے دنیا میں کسی کا محتاج نہ رکھا، لیکن اس کے باوجود ”اُمّی“ لقب صرف حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کو عطا فرمایا۔
” نبی اُمّی“ اور قراٰنِ پاک: اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ صفاتی نام قراٰنِ پاک کی دو آیاتِ مبارکہ میں ہے: (1)
(اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-)
ترجَمۂ کنزالایمان:وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں ([i])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(2)(فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۱۵۸))
ترجَمۂ کنزالایمان: تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اُس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ۔ ([ii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
لفظ ”اُمی“ کی وضاحت قراٰن کی روشنی میں :امام ابو منصور محمد بن محمود ماتریدی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اُمی کا مفہوم وہ ہے جو دوسری آیت میں موجود ہےچنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے :
وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(۴۸) ([iii])
ترجَمۂ کنز الایمان: اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے۔([iv])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
لفظ ”اُمّی“ کی وضاحت تفاسیر کی روشنی میں: تفسیرِ خازن میں امام علی بن ابراہیم رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:قراٰنِ پاک کے نازل ہونے سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے اگر آپ لکھتے یا پڑھتےتو ضرور اہلِ کتاب کہتے کہ ہماری کتابوں میں نبیِّ آخر الزّماں کی صفت یہ مذکور ہے کہ” وہ اُمّی ہوں گے نہ لکھیں گے نہ پڑھیں گے، حالانکہ یہ تو وہ نہیں۔“ یا مکہ کے مشرکین یہ اعتراض کرتے کہ ہوسکتا ہے تم نے قراٰن کو لوگوں سے سیکھ کر اپنے ہاتھ سے لکھا ہو۔([v])
علامہ سید محمود آلوسی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُم القریٰ یعنی مکہ کے رہنے والے تھے اس لئے آپ کو اُمّی فرمایا اور یہ قول امام باقر رحمۃُ اللہِ علیہ کی طرف منسوب ہے۔ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اُمی صفت سے موصوف فرمایا گیا تاکہ اس بات پر تنبیہ ہو جائے کہ اللہ کے نبی اُمّی ہونے کے باوجود کامل علم رکھتے ہیں اورآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اُمّی ہوناآپ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور باقی کسی کے لئے اُمّی ہونا باعثِ فضیلت نہیں جیسا کہ تکبر کا لفظ صرف اللہ پاک کے لئے باعثِ تعریف ہے اور مخلوق کے لئے برائی ہے ۔([vi])
امام ابو عبد الرحمٰن سلمی رحمۃُ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں : نبی اُمی وہ عظیم شخصیت ہیں جنہیں دُنیاکی کوئی چیز بھی عیب دار نہیں کر سکتی ۔ اُمی وہ ہستی ہے جو دنیا اور آخرت میں وہ کچھ جانتا ہے جو اسے اس کے رب نے سکھایا ۔ ([vii])
”نبی اُمّی“ کو کس نے پڑھایا؟ اللہ پاک اپنے نبی کے علوم کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)
ترجَمۂ کنز الایمان:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔([viii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵)
ترجَمۂ کنز الایمان: آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔([ix])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ(۳) عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(۴)
ترجَمۂ کنز الایمان:رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا ،انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا،ما کان وما یکون (یعنی ماضی ،حال اور مستقبل)کا بیان اُنہیں سکھایا۔([x])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
” نبی اُمی“ اور مقصدِ نبوت و رسالت : عام لوگوں کے حق میں اُمی ہونا عیب ہے جبکہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حق میں اُمی ہونا ہر عیب سے پاک ، قابلِ تعریف اور کامل علم والا ہونے پر دلالت کرتا ہے نیز اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا امی ہونا آپ کے حق میں اللہ پاک کی طرف سے ایک معجزہ ہے جیسا کہ تفاسیر میں بیان ہوا ۔ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حق میں اُمی ہونے کو عیب بتانا نبوت اور رسالت کے مقاصد سے لاعلم ہونے اور گمراہی کا نتیجہ ہے کیونکہ منصبِ نبوت اور رسالت علم سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا، منصبِ نبوت اور رسالت تو بہت ارفع واعلیٰ ہے جبکہ اللہ پاک منصب ولایت بھی بے علم کو نہیں دیتا۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو معلمِ کائنات ہیں لوگوں کو تعلیم دیتے، انہیں پاک اور ستھرا فرماتے ہیں چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴)
ترجَمۂ کنز الایمان :بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ ([xi])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
”نبی اُمّی“ کے تشریف لانے سے پہلے اہلِ عرب کی حالت: اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد سے پہلے اہلِ عرب کی بہت بُری حالت تھی ، کفر وشرک ، فسق وفجور ،قتل وغارت گری ، ڈاکہ زنی اور جہالت سرعام تھی ، قبیلوں کے درمیان کئی صدیوں پر محیط لڑائی نسل در نسل جاری رہتی لیکن اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسی قوم کے افراد کو اپنی تعلیم وتربیت سے علوم وکمال اور انسانیت کے عروج تک پہنچایااور آپس میں شیر وشکر کر دیا ۔
”نبی اُمّی“ کی تعلیم وتربیت کی برکات : اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسلام کی تبلیغ اور اپنی امت کی اصلاح کا کام اتنی خوبی سے انجام دیاکہ رہتی دنیا تک آپ کا یہ کام یاد رکھا جائے گا، جو مسلمان صدقِ دل سے اس بارگاہ میں حاضر ہوا علوم اور برکات سمیٹ کر گیا، اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی تعلیم وتربیت سے مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو صداقت ، دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہکودین میں صلابت(یعنی مضبوطی) تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حیاء اور سخاوت اور چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو شجاعت اور عدالت کا معیار بنایا ۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو قراءت ،معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حظر واباحت (یعنی حلال وحرام)، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو علم ِ وراثت کا نہ صرف عالم بلکہ اَعلم (یعنی سب سے بڑا عالم )بنایا ، یہ سب حقیقت میں اسی اُمّی نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفت ”اُمّی“ ہی کی جلوہ گری ہے کہ آج تقریباً 14 صدیاں گزر جانے کے باوجود علوم کے منبع و سر چشمہ وہی پیاری ذات ہے۔ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علم شریف کے بارے میں امام بوصیری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِ کَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَہَا
وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ
ترجمہ: دنیا اور آخرت نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخاوت کا ایک قطرہ ہے جبکہ لوح وقلم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علوم کا کچھ حصہ ہے ۔
اُمّی ہونا ایک معجزہ:علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اُمی ہونا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حق میں معجزہ ہے اگرچہ آپ کے علاوہ دیگر لوگوں میں یہ عیب اور خامی ہے۔ علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفا شریف میں لکھتے ہیں: معجزاتِ نبوی میں اہم اور عظیم ترین معجزہ قراٰنِ حکیم ہے جو معارف اور علوم کو شامل وحاوی ہے اور اس میں وہ فضائل و شمائل ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ پاک نے حضور علیہ السلام کی تعریف و توصیف فرمائی اور یہ تعجب کی بات ہے جس شخص نے نہ دنیا میں کسی سے پڑھا ہو،نہ کبھی کچھ لکھا ہو نہ کسی مدرسہ میں کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہوں ان سے ایسے کارناموں کا اظہار تعجب ہے اس طرح کے اُمی ہونے میں کوئی توہین نہیں بلکہ اسے معجزات میں شمار کیا جائے گا۔
اُمّی نام کی حکمتیں: علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس صفت” اُمی“ کی بڑی پیاری حکمتیں نقل کیں جن میں سے چند یہ ہیں :(1) اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لکھتے تو آپ کی تحریر مبارک بسااوقات ایسے لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچ جاتی جو اسے نہ پہچانتے اور اس کی تعظیم اس طرح نہ کرتے جس طرح کرنے کا حق ہے۔
(2)تحریر اس شخص کے لئے وسیلہ ہے جو حفظ نہ کر سکتا ہو جیسے لا ٹھی نابینا کے لئے چلنے کا آلہ ہے ۔(اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وہ عظیم قوت حافظہ عطا فرمایا کہ لکھنے کے محتاج ہی نہ تھے۔)
(3)ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جسے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود بیان کیا چنانچہ فرمایا: لَا اُرِیْدُ الْخَطَّ لِاَنَّ ظِلَّ الْقَلَمِ یَقَعُ عَلٰی اِسْمِ اللہ تَعَالٰییعنی میں تحریر کو نہیں چاہتا کیونکہ قلم کا سایہ اللہ پاک کے اسم پر پڑتا ہے ۔ اللہ پاک نے آپ کے اس ادب و احترام کی یہ جزا دی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سایہ کو زمین سے اٹھا دیا تاکہ اس پر کسی کا قدم نہ پڑے، اس لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ نہ تھا ۔
(4)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس لئے نہیں لکھا تاکہ قلم اللہ پاک کےاسم پاک کے اُوپر نہ پڑے ۔ اللہ پاک نے آپ کو اس کی جزا عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ([xii])
ترجَمۂ کنزالایمان: اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔([xiii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اُمّی نام کے فوائد: شیخ الحدیث عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ”سیرت مصطفیٰ“ میں ذکر کرتے ہیں:آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُمی لقب ہونے کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس کو تو خداوند علام الغیوب کے سوا اور کون بتا سکتا ہے؟ لیکن بظاہر اس میں چند حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے ہیں:
(1) تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہوں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا استاد صرف خداوند عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہوتاکہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔
(2) کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا استاد تھا تو شاید وہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ علم والا ہو گا۔
(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس ليے انہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انہیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔
(4) جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ساری دنیاکو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
(5) اگرحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ کو اس کی تعظیم کرنی پڑتی،حالانکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خالق کائنات نے اس ليے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرے، اس لئے اللہ پاک نے اسے گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استادہو۔(واللہ تعالیٰ اعلم) ([xiv])
مولانا جامی رحمۃاللہ علیہ فرماتےہیں:
نَگَارِ مَنْ کَہْ بَہ مَکْتَبْ نَرَفْت وَ خَطْ نَنَوِشْت
بَغَمْزِہ ِسَبَق آموز صَدْ مُدَرِّس شُدْ([xv])
یعنی میرے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ کبھی مدرسے گئے، نہ لکھنا سیکھامگر اپنی آنکھ اور ابرو کے اشارےسے سینکڑوں اساتذہ کو سبق پڑھایا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ایسا اُمّی کس لئے مِنَّت کَشِ اُستاذ ہو
کیا کفایت اس کو اقرء ربک الاکرم نہیں
شرح:یعنی نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کسی استاد کا احسان مند ہونے کی کیا ضرورت ہے جسے اس کا ربِّ کریم خود پڑھائے سکھائے۔([xvi])
اللہ پاک ہمیں ہمیشہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وفادار، ان کی عزت کا رکھوالا اور پہرہ دار بنائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments