گھر ٹوٹنے سے کیسے بچائیں؟

فریاد

گھر ٹوٹنے سے کیسے بچائیں؟

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری مد ظلہ العالی مختلف مقامات پرسنتوں بھرے اجتماعات میں  اصلاح وتربیت پرمشتمل بیانات اور مدنی چینل کے سلسلوں کے ذریعے اخلاقی،اصلاحی، اعتقادی، روحانی معاشی اور معاشرتی معاملات اور مسائل کا حل ارشاد فرماتے ہیں۔ذیل میں آپ کی گفتگو سے  لئے گئے 16 اہم نکات    ملاحظہ کیجئے:

(1) کسی معقول شرعی سبب کے بغیر طلاق دینا یہ اسلام میں سخت ناپسندیدہ  ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے : اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَى اللَّهِ تَعَالٰى اَلطَّلَاقُ یعنی حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے۔(ابو داؤد،2/370، حدیث: 2178) جبکہ طلاق کے کثیر معاشرتی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ لہٰذا حتی الامکان طلاق دینے سے بچنا ہی چاہئے ۔

(2) اگر میاں بیوی میں ناچاقی ہوجائے تو تعلقات بہتر بنانے کے لئے دینِ اسلام کی بیان کردہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے  آپس میں صلح کی کوشش کرنی چاہئے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگربیوی کی طرف سے کوئی نامناسب رویہ ہے تو شوہر بیوی کو اچھے انداز میں سمجھائے اگر اس طرح معاملہ حل نہ ہوتو بیوی سے چند دنوں کےلئے بستر علیحدہ کرلے  اور مقصد یہ ہو کہ طلاق کے نتیجے میں گزاری جانے والی زندگی کاایک نمونہ (عورت کے) سامنے آجائے گا جس سے ایک چوٹ لگتی ہے، قوی امکان ہے کہ اس سے سبق حاصل کرکے دونوں آپس میں صلح کرلیں ۔

(3) اگر یوں بھی صلح نہ ہوسکے تو پارہ نمبر 5 سورۃ النسآء کی آیت نمبر 35 کی ہدایت کے مطابق دونوں جانب سے سمجھدار اور معاملہ فہم افراد کو حَکَم یعنی منصف ( فیصلہ کرنے والا) بنا لیا جائے تاکہ وہ ان میں  صلح کروادیں ،اگر یہ صلح کروانے والے افراد اچھی نیت اور  حکمت بھرے انداز میں کوشش کریں گے تواللہ پاک زوجین کے درمیان اتفاق پیدا فرمادے گا ۔

(4) یادرکھئے! میاں بیوی کے جھگڑے کا حل یہ نہیں ہے کہ فوراً طلاق دے کر معاملے کو ختم کردیا جائے  اور بعد میں افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے،البتہ اگرباہمی تعلقات کی خرابی اس حد تک پہنچ گئی کہ میاں بیوی یہ سمجھتے ہوں کہ اب  ایک دوسرے کے شرعی حقوق ادا نہیں کرپائیں گے اور طلاق ہی اس کاآخری حل ہے  تو پھر شوہر اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق دے  جیسا کہ بہارِ شریعت میں اس کی تفصیل موجود ہے۔

(5)طلاق کا بنیادی سبب میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ہے، ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں کمی  اور ایک دوسرے کا احترام  کرنے کی کمی ہے ۔

(6) میاں بیوی کے درمیان  کوئی تیسرا شخص اسی وقت لڑائی بھڑائی اور جدا ئی کرواتا ہے جب ان دونوں میں اختلاف ہوتا ہے اگر دونوں میں اتفاق ہو تو کوئی انہیں کیسے جدا کروا سکتا ہے ۔

(7) میاں بیوی میں پائی جانے والی بری عادت جوتے میں لگی ہوئی کیل کی طرح ہوتی ہے جو اذیت دیتی ہے، اب کیل والا جوتا پہن کر کوئی کیسے چل سکتا ہے،لہٰذا اگر دونوں نے چلنا ہے تو اس کیل یعنی بری عادت کو نکالنا ہوگا۔

(8) گھر جہاں فرائض و واجبات(یعنی حقوق )  ادا کرنے سے چلتا ہے وہیں عرف وعادت اور معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا  کرنے سے بھی چلتاہے۔

(9) اگر میاں بیوی شک کرتے ہوئے ایک دوسرے کا موبائل چیک کرتے ہیں تو اس طرح اعتماد ختم ہوجاتا اور پھر (آپس میں) دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور گھر چلانے کے لئے اعتماد ایک  بنیادی اینٹ کا کردار ادا کرتا ہے اور جب اعتماد ہی نہ رہا تو گھر کیسے چل سکے گا ۔

(10)اگر میاں بیوی میں کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اپنی غلطی کو مان لینا چاہئے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کو غصہ آجائے تو دوسرے کو چپ رہنا چاہئے ،اگرآئے روز  بحث و مباحثہ کریں گے تو ایک دن نوبت طلاق تک پہنچ سکتی ہے۔

(11) (والدین کو چاہئے کہ ) جب لڑکی کو رخصت کریں تو مکمل طور پر رخصت کردیں اور ان دونوں میاں بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت نہ کریں ،روزانہ کال کرکے بیٹی کے گھر کے حالات معلوم نہ کریں اور بیٹی کو بھی چاہئے کہ اپنی ماں کو اپنے سسرال کی پل پل کی خبریں نہ پہنچائے  کہ اس سے گھر ٹوٹنے سے بچا رہے گا، اِن شآءَ اللہ۔

(12)لڑکا لڑکی دونوں کے والدین کو عدل سے کام لینا چاہئے کہ اگر لڑکی کی غلطی ہے تو ماں باپ اس کو بتائیں کہ بیٹی غلطی تیری ہے اگر غلطی لڑکے کی ہو تو اس کے والدین بھی اس کو تسلیم کریں اور لڑکے کو سمجھائیں، بالفرض اگر ان دونوں میں نہیں بنی پھر بھی آپ کو عدل کرنے کا ثواب ضرور ملے گا۔

 (13)لڑکی کی اپنے ساس سسر سے نہیں بنتی یا لڑکے کی اپنے ساس سسر سے لڑائی ہوگئی اور لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائے تو دونوں کے والدین کو چاہئے کہ اب اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں کہ جب تک لڑکا یا لڑکی اپنے ساس سسر سے معافی نہیں مانگیں گے تو دونوں نہیں مل سکتے بلکہ اپنی انا کو فنا کردیں اور اپنے بچوں کا گھر ٹوٹنے سے بچائیں اور درگزر سے کام لیں ۔

(14 ) لڑکا لڑکی کے درمیان جھگڑا ہونے کی صورت میں لڑکی اپنے گھر چلی گئی تو اب دونوں کے ماں باپ کو انہیں ملانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے  کہ دونوں کے سامنے ان کی اچھی باتوں اور اچھی عادتوں کا ذکر کریں  کہ اس طرح بھی دونوں کو ایک دوسرے کی اہمیت پتا چلے گی اور ہوسکتا ہے دونوں میں صلح ہوجائے۔

(15) اگر ہم غصہ ،ضد اور بحث سے بچ جائیں تو ان شآء اللہ ہمارا گھر ٹوٹے گا نہیں بسا رہے گا۔

(16) اگر آپ صاحب ِاولاد ہیں اور آپ کے درمیان  رنجش ہے تو آپ میاں بیوی یہ سوچ کر صلح کرلیں کہ والدین تو اپنی اولاد کی خاطر کتنی قربانیاں دیتے ہیں ہم اپنی اولاد کے لئے اپنے معاملات کیوں حل نہیں کرتے،ورنہ یاد رکھئے ! ماں باپ کی جدائی میں اولاد  کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔

اللہ کریم  ہر مسلمان کو اپنے گھر  میں شاد و آباد  رکھے اور گھر ٹوٹنے سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share