نیا طالب علم

کلاس روم

نیا طالب علم

*مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024

کلاس روم میں داخل ہوتے ہی سر بلال کی نگاہ پہلی قطار میں موجود ایک نئے چہرے پر پڑی تو لمحہ بھر کو ان کے چہرے پر اجنبیت کے آثار اُبھرے لیکن پھر آگے بڑھ کر معمول کے مطابق بچوں سے سلام دعا کرنے اور حال احوال پوچھنے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھ کر نئے بچے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: بیٹا ہم سب آپ کو اس کلاس میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ جس کا جواب نئے طالبِ علم نے مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ کہتے ہوئے دیا۔

سر بلال: بیٹا کیا آپ اپنا تعارف کروانا پسند کریں گے؟

سر میرا نام ثوبان علی ہے، نئے طالب علم نے بیٹھے بیٹھے ہی کہنا شروع کیا لیکن پھر کلاس مانیٹر محمد معاویہ کے اشارہ کرنے پر کھڑے ہو گئے۔

سر بلال: کوئی بات نہیں معاویہ بیٹا! ابھی یہ نئے ہیں آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گے پھر ثوبان کی طرف رخ پھیرا: دراصل ہماری کلاس میں جس بچے نے ٹیچر یا کلاس سے کوئی گفتگو کرنی ہو تو کھڑا ہو کر کرتا ہے تاکہ سب کو پتا بھی چل جائے کون بات کر رہا ہے اور آواز بھی سب تک آسانی سے پہنچ جائے اور اس کا ایک اور فائدہ بھی ہے کہ بچے ایک دوسرے کی بات بھی نہیں کاٹتے۔بہر حال آپ کا نام تو بہت پیارا ہے ما شآءَ اللہ۔

ثوبان علی: جی شکریہ سر، امی بتاتی ہیں کہ میرے دادا جان نے یہ نام رکھا تھاکسی بزرگ کے نام پر۔ اس بات پر کلاس کے کافی بچوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھا لیکن سر کے احترام میں خاموش رہے۔ سر میرے بابا جان ڈاک خانے میں جاب کرتے ہیں تو ان کا ٹرانسفر اس شہر میں ہو گیا لہٰذا ہمیں یہاں گھر لینا پڑا ہے۔

سر بلال: زبردست، آپ کے بابا جان پاکستان پوسٹ آفس میں نوکری کرتے ہیں پھر تو کبھی آپ سے ہم سنیں گے کہ ڈاکخانے میں کیا کیا ہوتا ہے، چلیں بیٹھ جائیں شاباش۔

جی ضرور سر، شکریہ کہتے ہوئے ثوبان علی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو درمیانی قطار سے ایک بچے نے کھڑے ہو کر سر کی اجازت سے کہنا شروع کیا: سر ! ثوبان نامی کون سے بزرگ تھے، ہم نے تو کبھی اس نام کے بزرگ نہیں سنے؟

سر بلال نے نظر اٹھا کر سامنے دیوار پر لگی گھڑی پر وقت دیکھاتو ابھی پیریڈ ختم ہونے میں کچھ وقت تھا ویسے بھی آج جمعہ کا بابرکت دن تھا جس روز انہوں نے پرنسپل صاحب سے مشاورت کےبعد یہ روٹین بنا رکھی تھی کہ اس دن کتاب کا سبق نہیں ہوگا بلکہ کسی بھی ایک مفید ٹاپک پر گفتگو ہوگی اور یوں بچے باتوں ہی باتوں میں زندگی کا کوئی سبق سیکھ کر جائیں گے: ارے بچو! ثوبان کی بات پر حیران ہونے والی کیا بات ہے، ثوبان تو ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت ہی پیارے صحابی کا نام تھا چلیں صحابیِ رسول حضرت ثوبان رضی اللہُ عنہ کا ذکر چل ہی پڑا ہے تو آپ کو ان کا ایک واقعہ سناتا ہوں:

ایک دن حضرت ثوبان رضی اللہُ عنہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ان کا چہرہ اُترا ہوا اور رنگ اُڑا ہوا تھا۔ ہمارے پیارے نبی جو سارے جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے ان سے بھلا اپنے پیارے صحابی کی یہ افسردگی کیسے دیکھی جاتی، تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ثوبان کی اس حالت کی وجہ پوچھی۔حضرت ثوبان نے عرض کیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! نہ کوئی جسمانی تکلیف ہے اور نہ کہیں درد۔ بات یہ ہے کہ جب یہاں آپ دکھائی نہیں دیتے تو  مجھے انتہا درجے کی وحشت و پریشانی ہونے لگتی ہے تو میں آپ کی بارگاہ میں شرفِ ملاقات کو حاضر ہوجاتا ہوں، مگرجب آخرت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں آپ کا دیدار نہیں کرسکوں گا۔کیونکہ آپ انبیائے کرام کے ساتھ بلند مقام پر فائز ہوں گے اگر میں جنت میں داخل ہوگیا تو آپ کے مرتبے سے کم مرتبے پر رہوں گا اور  اگر جنت میں نہ جاسکا تو پھر کبھی بھی آپ کی زیارت سے مستفیض نہ ہوسکوں گا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ ماجرا سن کر خاموش ہوگئے۔یہاں تک کہ حضرت جبریل امین یہ خوشخبری لے کر آئے: (ترجَمۂ کنزُالعرفان:)اور جواللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔(دیکھئے: مواہب لدنیہ،3/478)

تو بچو اب آپ جان گئے ہوں گے کہ حضرت ثوبان رضی اللہُ عنہ کون سے بزرگ تھے لیکن واقعہ سے ملنے والا یہ سبق بھی یاد رکھیے گا کہ جنت میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ساتھ چاہئے تو دنیا میں سب سے زیادہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کی جائے اور آپ کی سنتوں پر عمل کیا جائے یقیناً یہ جہاں بھی سنور جائے گا اور اگلا جہاں بھی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فر ماتے ہیں ناں!

لحد میں عشقِ رخِ شہ کا داغ لے کے چلے

اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی


Share