*مفتی محمد ہاشم خان عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
عورت کو سلے ہوئے پاجامہ یا شلوار میں کفن دینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ بعض خواتین یہ کہتی ہیں کہ عورت کے کفن میں اس کو سلا ہوا پاجامہ یا شلوار دینی چاہئے۔اور وہ اس پر کافی زور دیتی ہیں۔ کیا یہ درست ہے ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مردو عورت دونوں کی میت کے لئے ازار یعنی تہبندوالی چادر ہی سنت ہے۔لہٰذا عورت کی میت کو بھی سلا ہوا پاجامہ یا شلوار پہنانا خلافِ سنت ہے۔ بالخصوص عورت کے کفن کے متعلق سنت طریقہ جو حدیثِ پاک سے ثابت ہے اس کے مطابق عورت کے کفن میں سلی ہوئی شلوار شامل نہیں ہے بلکہ تہبند یعنی بغیر سلی چادر ہے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی ایک شہزادی محترمہ کی وفات پر غسل دینے والی خواتین کو کفن کے کپڑے خود ایک ایک کر کے پکڑائےاور یہ پانچ کپڑے تھے لیکن اس میں سلی ہوئی شلوار نہیں تھی۔ اور ان پانچ کپڑوں میں سب سے پہلے اپنا تہبند شریف بطورِ تبرک عطا فرمایا اور غسل دینے والی خواتین کو فرمایا کہ یہ والی چادر ان کے جسم کے ساتھ متصل رکھیں۔
میت کو شلوار نہ پہنانے کی وجہ علماء نے یہ بیان کی ہے کہ زندہ شخص شلوار اس لئے پہنتا ہے کہ چلنے پھرنے اور کام کاج کے وقت اس کا سَتَر(یعنی مرد و عورت کا وہ مقام جسے چھپانا واجب ہے وہ ) نہ کھلے لیکن میت کے لئے ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا کیونکہ اس نے چلنا نہیں ہوتا اس لئے میت کو شلوار کی حاجت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ انسان تہبند نیچے اور قمیص اوپر رکھتا ہے تاکہ اس کو چلنے میں سہولت رہے اور میت نے چونکہ چلنا نہیں اس لئے اس کی قمیص نیچے او رازار (تہبند) کی چادر اس سے اوپر ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے میت کو جو قمیص پہنائی جاتی ہے اس کی آستینیں نہیں رکھی جاتی اور اس کی قمیص کو پہلوؤں کی جانب سے سلائی نہیں کیا جاتا کیونکہ زندہ انسان کو تواپنے لباس میں اس کی حاجت ہوتی ہے جبکہ میت کواس کی حاجت نہیں ہوتی۔
خلاصہ یہ کہ میت اگر عورت ہو تو اسے بھی سنت کے مطابق کفن دینا چاہیے او راس میں سلی ہوئی شلوار نہیں پہنانی چاہئے۔ جو لوگ سلا ہوا پاجامہ یا شلوار پہنانے پر زور دیتے ہیں وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے سنت و طریقۂ مسلمین کی مخالفت کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس سے باز آئیں اور علماء کرام نے جو شریعت کے احکام و مسائل بیان فرمائے ہیں ان کو تسلیم کر کے ان پر عمل کریں۔ اسی میں ہماری کامیابی ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شیخ الحدیث و مفتی دارُالافتاء اہلسنت لاہور
Comments