اسلام کا نظام
عدلِ اسلامی کی مثالیں
*مولانا عبدالعزیز عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
دنیا کے نظام کواحسن و خوب انداز کے ساتھ چلانے اور حسنِ معاشرت قائم رکھنے کے لئے اسلام کے دیئے گئے نظام کا ایک بہت ہی اہم حصہ عدل و انصاف بھی ہے۔ اسلام نے عدل و انصاف کے قیام و فروغ کے لئے کیا کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس کا تفصیلی بیان پچھلے ماہ کے شمارے میں ہوا، یہاں عدلِ اسلامی کی کچھ مثالیں اور اس کے اثرات ملاحظہ کیجئے:
(1)حضور نے حضرت عکاشہ کو بدلہ دے دیا ایک مرتبہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر کسی کا مجھ پر کوئی بدلہ ہو تو وہ لے لے تو حضرت عکاشہ رضی اللہُ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ نے باربار قسم نہ دی ہوتی تو میری مجال ہی نہیں تھی کہ میں کسی چیز کے بدلے کے لئے آپ کے سامنےآتا۔ میں آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا، فتح کے بعد جب ہم واپس آرہے تھے تو میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے برابر آگئی، میں اپنی اونٹنی سے اتر کر آپ کے قریب ہوا تاکہ آپ کےقدم مبارک پر بوسہ دوں تو آپ نےچھڑی بلند کی اور میرے پہلو پر ماری، میں نہیں جانتا کہ آپ نے ایسا جان بوجھ کر کیا یا آپ کا ارادہ اونٹنی کو مارنے کا تھا؟ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اللہ پاک کے جلال سے پناہ میں لیتا ہوں کہ اللہ کا رسول تمہیں جان بوجھ کر مارے۔ پھر فرمایا: اے بلال! فاطمہ کے گھر جاؤ اور وہی پتلی چھڑی لے آؤ۔ جب آپ وہ چھڑی لے آئے تو حضرت عکاشہ کو فرمایا:اے عکاشہ! اگر تم مارنا چاہتے ہو تو مارو۔ حضرت عکاشہ نے عرض کی: جس وقت آپ نے مجھے مارا تھا اس وقت میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا۔چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا ہٹا دیا، یہ دیکھ کر مسلمانوں کی چیخیں نکل گئیں جب حضرت عکاشہ نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک پیٹ کی سفیدی کو دیکھا گویا مصری کی ڈلی ہو تو فوراً حضور علیہ السّلام سے چمٹ گئے اور بطن مبارک کا بوسہ لیتے ہوئے عرض گزار ہوئے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! بھلا کون ہے جو آپ سے بدلہ لینے کا سوچ سکے۔ ([i])
(2)قرض کو احسن طریقے سے ادا کرو ایک دفعہ ایک صاحب کی اونٹنی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذمہ دَین تھی آپ نے حضرت رافع رضی اللہُ عنہ سے فرمایا: جو اونٹنیاں آئی ہیں ان میں سے اسی معیار کی اونٹنی دے دیں انہوں نے عرض کی: تمام اونٹنیاں اس سے بہتر ہیں جو آپ کے ذمہ ہے، آپ نے فرمایا: اسی میں سے دے دو یہ حسن ادائیگی کا تقاضہ ہے۔([ii])
(3)حدود کے نفاذ میں کسی کی رعایت نہیں ایک مخزومیہ عورت نے چوری کی جس کی وجہ سے قریش کو فکر پیدا ہوگئی آپس میں لوگوں نے کہا کہ اس کے بارے میں کون شخص رسولُ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سفارش کرے گا؟ پھرلوگوں نے کہا: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہما جو رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محبوب ہیں۔ حضرت اسامہ نے سفارش کی اس پر حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: تم حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو! پھر حضور علیہ السّلام خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور اس میں فرمایا: اگلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کیا کہ اگران میں کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اللہ پاک کی قسم! اگرفاطمہ بنتِ محمدبھی چوری کرتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔([iii])
(4)قانو ن میں سب برابرغزوۂ بدر کے موقع پر جب بہت سارے لوگ قیدی ہوئے تو ان میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہُ عنہ بھی تھےجب فدیہ مقرر ہوا تو ان کے لئے بھی مقرر ہوا، انہوں نے فدیہ معاف کرنے کی درخواست کی انصار نے بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رشتہ کی رعایت کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان کا فدیہ معاف کردیا جائے لیکن آپ نے اس کو قبول نہیں کیا اور ان سے بھی فدیہ وصول فرمایا۔([iv])
(7)حکمرانوں کی اولادیں بھی عدل کے کٹہرے میں ایک مصری شخص نے حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں شکایت کی کہ میں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ جو کہ گورنر تھے ان کے بیٹے کے ساتھ دوڑ لگائی تو میں ان سے سبقت لے گیا ان کے بیٹے نے مجھ پر کوڑے برسائے اور یہ بھی کہا ہے کہ تم میرا مقابلہ کرتے ہوحالانکہ میں دو کریموں کا بیٹا ہوں؟ آپ نے فوراً ان کوایک مکتوب روانہ فرمایا جس میں انہیں اپنے بیٹے سمیت مدینَۂ منورہ میں حاضر ہونے کا حکم دیا جب حاضر ہوئے تو فرمایا وہ مصری شخص کہاں ہے؟ جب وہ حاضر ہوا تو اسے فرمایا:یہ کوڑا پکڑو اور اسے مارنا شروع کرو اس مصری نے کوڑے برسانا شروع کئے وہ مارتا جاتا اور آپ فرماتے دو کریموں کے بیٹے کو اور مارو۔([v])
(8)اسلام بھی نصیب ہوا اور زرہ بھی مل گئی ایک دن امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہُ عنہ کی زرہ گم ہوگئی، آپ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی اور اس یہودی کوکہا کہ یہ میری زرہ ہے، فلاں دن گم ہوگئی تھی جبکہ یہودی نے آپ کا دعویٰ درست ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی چنانچہ آپ اور وہ یہودی دونوں فیصلے کے لئے قاضی شریح رحمۃُ اللہِ علیہ کی عدالت میں پہنچے آپ نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہودی کے پاس زرہ میری ہے جو فلاں دن گم ہوگئی تھی۔قاضی نے یہودی سے پوچھا: آپ نے کچھ کہنا ہے۔ یہودی نے کہا: میری زرہ میرے قبضے میں ہے اور میری ملکیت ہے۔قاضی نے زرہ دیکھی اور یوں گویا ہوئے۔ اللہ کی قسم! اے امیرالمؤمنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے یہ زرہ آپ ہی کی ہے لیکن قانون کے تقاضوں کو پورا کرنا آپ پر واجب ہے قانون کے مطابق آپ گواہ پیش کریں آپ نے بطور گو اہ اپنے غلام قنبر کو پیش کیا پھر آپ نے اپنے دو بیٹوں حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہُ عنہما کو عدالت میں پیش کیا انہوں نے بھی آپ کے حق میں گواہی دی۔ قاضی نے کہا: میں آپ کے غلام کی گواہی تو قبول کرتا ہوں مگر ایک گواہ مزید درکار ہے کیونکہ آپ کے حق میں آپ کے بیٹوں کی گواہی ناقابل قبول ہے۔ آپ نے فرمایا: تو پھر آپ ان کی گواہی قبول کیوں نہیں کرتے؟ قاضی نے کہا: یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں اور باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں یہ کہہ کر قاضی نے آپ کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کردی۔ یہودی نے تعجب سے کہا: مسلمانوں کا حکمران مجھے اپنے قاضی کی عدالت میں لایا اور قاضی نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ صادر فرمادیا اور انہوں نے اس کا فیصلہ بلا چون و چرا قبول بھی کرلیا۔ واللہ یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے پھر یہودی نے آپ کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہنے لگا اے امیرالمؤمنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے یہ زرہ یقیناً آپ ہی کی ہے۔ فلاں دن یہ آپ کے اونٹ سے گر گئی تھی تو میں نے اسے اٹھا لیاچنانچہ وہ یہودی اس عادلانہ فیصلے سے متأثر ہوکر مسلمان ہوگیا اور آپ نے وہ زرہ بطور تحفہ اس کو دے دی۔([vi])
(9)جانوروں کے ساتھ بھی عدل و انصاف ایک مرتبہ ایک اونٹ کے ذریعے پانی نکال کرکھیت میں ڈالا جا رہا تھا اونٹ کی نظر جیسے ہی پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پڑی توبڑی بے قراری سے چیخا اور اپنی گردن زمین پررکھ دی، یہ دیکھ کر آپ اونٹ کے پاس ٹھہر گئے اور اس کے مالک کو بلواکر فرمایا:یہ اونٹ ہمارے ہاتھ بیچ دو! اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!ہم یہ آپ کی بارگاہ میں تحفۃً پیش کرتے ہیں یہ ایسے گھر والوں کا ہے جن کے پاس اس اونٹ کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں آپ نے فرمایا: اس اونٹ نے ہم سے چارہ کی کمی اور کام کی زیادتی کی شکایت کی ہے لہٰذا تم اس سے اچھا سلوک کیا کرو۔ ([vii])
(10)اموال وجائیداد کی واپسی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے اعلان عام کروا دیا کہ جن لوگوں کے مال وجائیداد پر کسی نے قبضہ کررکھا ہے وہ اپنی شکایتیں پیش کریں اسی طرح جو بھی اموال و جائیداد اور زمین وغیرہ شاہی خاندان کے پاس ناحق موجودتھی وہ سب کی سب آپ نے حق داروں کوواپس کروادی اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی، آپ نے اس معاملے میں بڑے عدل و انصاف کا مظاہرہ کیا اورشاہی خاندان کے پاس کوئی چیز بھی ایسی نہ چھوڑی جس پر کسی دوسرے کاحق ثابت ہورہا ہو۔([viii])
پیارے اسلامی بھائیو! دنیا میں جتنے بھی عدل و انصاف کے نام پرنظام قائم ہیں ان سب سے بڑھ کر جاندار مضبوط اور پائیدار نظام صرف اسلام کا ہےجس کی حقانیت کی گواہی صدیوں سے خاص و عام کی زبان پر جاری ہےاور اس کے فوائد اورنتائج بھی لوگوں کے سامنے ہیں، معاشرے میں ترقی خوشحالی اور امن و امان قائم کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی نظام نہیں بشرطیکہ اسے تمام تقاضوں کے ساتھ نافذ کیا جائے۔
اسلامی نظامِ عدل و انصاف جب جب اور جہاں جہاں قائم رہا ہر طرف امن و امان کی فضا قائم رہی، لوگوں کے مال و جان کی حفاظت رہی، کاروباری سرگرمیاں تیز ہوئیں، ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں، خوشحالی عام ہوئی اور لوگ آرام و سکون اور اطمینان سے زندگی بسر کرتے رہے ۔
اللہ کریم ہمیں اسلاف جیسے عدل و انصاف قائم کرنے والے حکمران عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ ملفوظات امیر اہل سنت، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments