Faizan e Imam e Azam

Book Name:Faizan e Imam e Azam

تمہارے کپڑے خرید لئے، یہ رقم بچ گئی، اب یہ بھی تمہاری ہی ہے۔ یہ سُن کر اس نے رقم اور کپڑے لئے اور خوشی خوشی دُعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔

امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ چاہتے تو اسے کپڑے بھی دے سکتے تھے، اسے مال بھی عطا فرما سکتے تھے مگر آپ نے اس شخص کے نام سے تجارت کی، اس میں کیا حکمت تھی، جب اس بارے میں آپ سے سُوال ہوا تو فرمایا: اس نے کہا تھا: مجھ پر احسان فرمائیے! چنانچہ احسان (یعنی بھلائی ) کی یہی صُورت تھی۔([1])

سُبْحٰنَ اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! کیسی پیاری بات ہے، وہ شخص آیا تو مدد لینے تھا مگر آپ نے اس کے ساتھ کمال بھلائی فرمائی، اس کے لئے تجارت میں مال شامِل کیا اور سارا نفع اسے عطا فرما دیا۔ اسے کہتے ہیں: بھلائی کرنا۔کاش! ہم بھی دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے والے بن جائیں۔ جہاں تک ہو سکے دوسروں کو فائدہ پہنچایا کریں اور وہ کام اختیار کریں جس میں دوسرو ں کا زیادہ فائدہ ہو، مثلاً غریب کو کچھ پیسے دے دئیے! یہ یقیناً اس کی مدد ہے، یہ بھی ثواب کا کام ہے مگر اللہ پاک نے ہمّت دی ہے تو اسے چھوٹا موٹا کاروبار کر دینا، تھوڑا سا کریانے کا سامان ڈلوا دینا تاکہ اس کے بچوں کا خرچ چلتا رہے، یقیناً اس میں غریب کا زیادہ فائدہ ہے۔ لہٰذا جہاں تک ممکن ہو، دوسروں کو زیادہ ہی فائدہ پہنچائیں۔

مجبوری سے فائدہ مت اُٹھائیے!

ہمارے ہاں لوگ دوسروں کی مجبوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہیں *اپنے رشتے داروں میں کوئی بیچارہ غریب ہے، لوگ اس کی غربت کا فائدہ اُٹھاتے ہیں، کم تنخواہ پر اس سے کام


 

 



[1]... مناقب ابی حنیفہ للموفق، الباب الرابع عشر فی ذکر سماحتہ...الخ، جز:1، صفحہ:241۔