گھر والوں کا دل جیتنے کے نسخے

اسلام اور عورت

گھروالوں کا دل جیتنے کے نسخے

*اُمّ میلاد عطّاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

اخلاق وہ چیز ہے جس کی کوئی قیمت نہیں دینی پڑتی مگر اس سے ہر انسان خریدا جاسکتا ہے۔ حضورنبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا:تم میں سے بہتروہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لئے بہتر ہے اور میں اپنے گھروالوں کے لئے تم سب سے بہتر ہوں۔ ([1])نیک، اچھے اور کامیاب لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خود سے تعلق رکھنے والوں کے دل جیتنے والے ہوتے ہیں، آخر وہ کونسی سی خوبیاں ہیں جن کو اپنا کر انسان ہر دل عزیز بن سکتا ہے کہ دنیا سے جانے کے بعد بھی لوگ اُسے یاد رکھیں۔ ہرجگہ کا ماحول خوشگوار رہے، زندگی کا سفر محفوظ وآسان ہوجائے۔ لوگ آپ کی مثالیں دیں، آپ جیسا بننے کی کوشش کریں، آپ آئیڈیل پرسنالٹی بن جائیں اور دنیا وآخرت میں آپ کا نام روشن ہو۔ اگر آپ گھر والوں کا دل جیتنا چاہتے ہیں تو ہرجائز کام میں ہمیشہ اُن کی اطاعت کریں۔  کیونکہ ناجائز کام میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے: لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِق یعنی اللہ  پاک کی ناراضی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔([2])

سب سے پہلے تو والدین کا دل جیتنے کی کوشش کریں اُن کے سامنے اپنی آواز دھیمی، نگاہیں نیچی رکھیں۔کبھی بھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کریں۔اُن کے چہروں کو محبت بھری نظروں سے دیکھیں۔ حضور نبیِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رَحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اُس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور (یعنی مقبول حج )کا ثواب لکھتاہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کی: اگرچِہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے؟ارشادفرمایا: نَعَمْ، اللہُ اَکْبَرُ وَاَطْیَب یعنی ہاں،اللہ پاک سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ پاک ہے۔([3])ایسے ہی بچوں کو خوش کرنا سنتِ نبوی ہے۔ نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اِنَّ فِي الْجَنَّةِ دَاراً يُقَالُ لَهَا دَارُ الْفَرْحِ، لَايَدْخُلُهَا اِلَّا مَنْ فَرَّحَ الصِّبْيَان ترجمہ: بے شک جنّت میں ایک گھر ہے جسے دار الفرح (خوشی کا گھر) کہا جاتا ہے،اُس میں وہی داخل ہوگا جو بچوں کو خوش رکھتا ہے۔([4]) بچوں کے ساتھ اُن کے کھیلنے، ہنسنے، بہلنے کی باتیں کریں۔ کھیل ہی کھیل میں بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں۔ بیٹیوں اور بیٹوں کے درمیان برابر ی کا معاملہ رکھیں۔

ایسے ہی نیت کی درستی کے ساتھ ساتھ عدل وانصاف، معاف کرنے، حسن اخلاق، عاجزی ونرمی اور سلام کی عادات اپنائیں نیز گھر کا سکون جن چیزوں سے وابستہ ہے ان میں سے ایک ”جھگڑے “ سے بچنا بھی ہے،ہر معاملے میں اپنی من مانی کرنا دوسروں کو تنگی میں مبتلا کرنے والی بات ہے، دوسروں کی بھی سنیں پھر اس کے فائدے دیکھئےچھوٹی چھوٹی باتوں پر طوفان مچانے والا اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے۔ ہر وقت ”تنقید کے تیر“ برسانے کے بجائے اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی بھی کرتے رہنا چاہیے، اِس سے دوسروں کے دل میں جگہ بنتی ہے۔ ہر وقت تیوری چڑھا کر رکھنا (یعنی غصیلا چہرہ بنانا) آپ سے لوگوں کو دُور تو کرسکتا ہے قریب نہیں۔اسی طرح فیملیز میں بے سکونی کی ایک بڑی وجہ برداشت نہ ہونا بھی ہے۔اگر آپ کے اندر برداشت نہیں ہے تو چاہے آپ گھر میں صرف دو فرد بھی رہتے ہیں تو آپ دونوں لڑتے رہیں گے۔آپ کے تعلقات کو دور تک لے جانے میں آپ کا تحمل اور پیمانۂ برداشت( Level of tolerance) بہت معنیٰ رکھتے ہیں۔ بعض اوقات برداشت کرنے والا فرد یہ سوچ لیتا ہے کہ میں اکیلا ہی کیوں برداشت کروں؟ عرض ہےکہ آپ اکیلے کے برداشت کرنے کی برکت سے آگے جا کر دوسرا بھی برداشت کرنے والا بن جاتا ہے۔ایسے ہی عیبوں کو چھپائیں۔ اندر کے لوگ گھر کی باتیں اندر رکھتے ہیں،وہ باہر کے لوگ ہوتے ہیں جو گھر کی باتیں باہر کرتے ہیں۔ آپ گھر کے اندر کے فرد ہیں تو گھر کی باتیں اندر رکھیں۔ہم میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی ہوتی ہیں ہم ہر ایک کو غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو غلط نہ سمجھیں کیونکہ ہر ایک غلط نہیں ہوتا، مختلف ہوتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی غلط ہو اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ غلط نہ ہو لیکن لوگوں کے مختلف ہونے کو سمجھیئے اِن شآءَ اللہ آپ کو لوگوں کے ساتھ رہنے میں یہ بات مددگار ثابت ہوجائے گی۔ ایک دوسرے کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکنا بھی بند کردیں۔ چاہے میاں بیوی الگ رہ رہے ہیں، یا آپ جوائنٹ فیملی کے ساتھ رہ رہے ہیں بعضوں کی بلاوجہ ٹوکنے کی عادت ہوتی ہے یہ چھیڑنا برائے چھیڑنا ہوگیا، دل و دماغ بڑا رکھیں، ایک دوسرے کے حقوق کو پڑھیں۔ ہمارے دینِ اسلام کی یہ خوبصورتی ہے کہ اس نے ہر طرح کے حقوق کو الگ الگ واضح کیا ہے۔باپ کے حقوق الگ بیان کیے ہیں تو ماں کے حقوق الگ، بہن، بھائی، شوہر، بیوی، بیٹا، بیٹی، یہاں تک کہ ماں کی بہن خالہ کے حقوق بھی الگ بیان کردیئے۔ سب کے حقوق الگ الگ بیان کئے،ان حقوق کو پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری لائن ہےجس کے اندر ہمیں رہنا ہے۔ حقوق کو ادا کریں۔ اگر آپ کی غلطی ہے تو جلد مان لیں، اس سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ زندگی کو آسان بنا دیں تعلقات کو بہتر بنادیں اگر ان پر آپ عمل کریں گے تو ان شآءاللہ آپ بہت ساری پریشانیوں سے نکل جائیں گے۔ لوگوں کو اہمیت دیں، حسد سے کچھ نہیں ملے گا سوائے آگ میں جلنے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسے کاموں سے خود کو بچائیں جس میں نہ دنیا کا فائدہ ہو نہ آخرت کا، انسان کے حسنِ اسلام میں یہ بھی ہے کہ وہ ”لایعنی“ کاموں کو چھوڑ دے، اس کو سامنے رکھ کر زندگی گزاریں آپ کی زندگی لوگوں کے لئے رول ماڈل بنے گی۔ایسی گنجائش ہی نہ رکھیں کہ کوئی فضول چیز اندر داخل ہوسکے۔ لوگوں کی نفسیات کے مطابق بات کریں لوگوں کے مزاج اور انداز کو سمجھتے ہوئے کام کریں، بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی عادت بنائیں درگزر کو اپنی عادت بنائیں۔ جس طرح مکان بناتے وقت کوئی سُوراخ یا دراڑیں نہیں چھوڑی جاتیں کہ جس سے لوگ مکانوں میں جھانکیں اسی طرح اہلِ علم اور عقلمند لوگ اپنے کردار میں ایسی گنجائش نہیں رکھتے کہ جس سے ان کے کردار میں لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں۔ آزمائش شرط ہے۔اپنے کردار کو خوبصورت بنانے کے لئے ہر ہفتے مدنی مذاکرہ دیکھئے اور سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کیجئے اِن شآءَ اللہ الکریم اس کی برکتیں خوب ظاہر ہونگی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن



([1])ترمذی،5/475،حدیث:3921

([2])مشکاۃ المصابیح،2/8، حدیث:3696

([3])شعب الایمان،6/183،حدیث:7856

([4])کنزالعمال،2/71،حصہ 3،حدیث:6006


Share

Articles

Comments


Security Code