
کام کی باتیں
قربانی کی احتیاطیں
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء
قربانی ایک اہم فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لئے مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق مال خرچ کرتے ہیں اور سنت ابراہیمی کو ادا کرتے ہیں۔لہٰذا قربانی سب کو راضی کرنے کے بجائے اپنے رَبّ کو راضی کرنے کی نیت سے اورتقویٰ واخلا ص کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے کرنی چاہیے۔ نگران شوریٰ مولاناحاجی محمد عمران عطاری نے ایک بیان میں قربانی سے متعلق مدنی پھول ارشاد فرمائے ان میں سے چند ملاحظہ کیجئے:
(1)حدیثِ پاک میں ہے کہ انسان بقرہ عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جواللہ پاک کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو، یہ قُربانی قیامت میں اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گی اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے۔ لہٰذا خوش دِلی سے قُربانی کرو۔ ([1])
حضرت علّامہ شیخ عبدُالحق مُحَدِّث دِہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قربانی، اپنے کرنے والے کے نیکیوں کےپلّے میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا۔([2])
حضرتِ علّامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:پھر اس کے لئے سواری بنے گی جس کے ذریعے یہ شخص بآسانی پُل صراط سے گزرے گا اور اُس(جانور) کا ہرعُضو مالِک( یعنی قُربانی پیش کرنے والے) کے ہر عضو (کیلئے جہنَّم سے آزادی)کافِدیہ بنے گا۔ ([3])
(2)قربانی خوش دلی اور اللہ کی رضا کے لئے کرنی چاہیے کیونکہ قربانی کی دعا جو قراٰنِ کریم کی2 آیات مبارکہ ہیں:
(۱)
(اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹) )
ترجَمۂ کنزالایمان:میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان وزمین بنائے ایک اُسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں نہیں۔ ([4])
(۲)
(قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۶۳))
ترجَمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا، اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم ہوا ہے اور مَیں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ ([5])
ان دونوں میں بھی یہی (یعنی عبادت کو اللہ کی رضا کےلئے کرنے کا) درس ملتا ہے۔اگر ہم اس مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے قربانی کریں تو قربانی کا لطف دوبالا ہوجائےگا۔
(3)قربانی کے لئے جو مہنگا جانور لیا گیا اس کی خریداری میں اخلاص بہت ضروری ہے کیونکہ ہم یہ کام عبادت کی نیت سے کرتے ہیں اورعبادت میں اگر ریاکاری ہو تو وہ اسے ضائع کر دیتی ہے۔
(4)قربانی ایک عبادت ہے اور شیطان ریاکاری کے ذریعےکسی بھی عبادت کو باطل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور بندہ جو کام نیکی کی نیت سے کرنا چاہتاہے شیطان اس کو گناہ کا سبب بنادیتاہے ۔
(5)قربانی اپنے پاک مال سے کیجئے اور اس میں اخلاص کو پیشِ نظر رکھئے ۔
(6)آپ منڈی کا سب سے مہنگا اور خوبصورت جانور خرید لائیں مگر اپنی نیت پر بھی ایک بار غور کریں کہ میں یہ جو مہنگا جانور خرید لایا ہوں اس کا مقصد اللہ کی رضا وخوشنودی ہے یا شہرت کا حصول اور حب جاہ مقصود ہے ۔
(7)اگر کوئی ہر سال مہنگا جانور خریدتا تھا مگر اس بار مہنگائی کی وجہ سے گنجائش نہیں ہے تو کوئی سستا جانور خرید لے تاکہ قربانی کا واجب تو ادا ہوجائے۔ اب اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ میں سستا جانور لاؤں گا تو” لوگ کیا کہیں گے “تو ایسے شخص کو اپنی نیت پر غور کرلینا چاہیے( کہ وہ اب تک کس نیت سے قربانی کرتا رہا ہے)۔
(8)اگر کوئی مہنگا جانور لایا جسے دیکھنے کے لئے لوگوں کا رش لگا رہتا ہو تو ہمیں اس کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دکھاوے کے لئے ہی لایا ہے (اگرہم اس کی نیت پر اس طرح کا تبصرہ کریں گے تو یہ بدگمانی کہلائے گی جوبڑا گناہ ہے)۔
(9) کسی کااچھا جانور دیکھ کر اس کی تعریف کرنی چاہئے کہ ماشآء اللہ! آپ نے کیا خوبصورت جانور لیا ہے اللہ پاک آپ کی قربانی قبول فرمائے۔
(10)جس نے اللہ کی راہ میں زیادہ پیسے خرچ کرنے کی نیت سے اپنی استطاعت سے بڑھ کرمہنگا جانور لیا لیکن تبصرہ کرنے والے اس پر ریاکاری کا لیبل لگادیں تو یہ بری بات ہے ، ممکن ہے حیثیت سے بڑھ کراللہ کی راہ میں پیسے خرچ کرنے کی برکت سے اس کے لئے جنت میں محل بنا دیا جائے اور اس کے درجات کی بلندی کا سبب بن جائے ۔
(11)قربانی کے جانور کی عمر : اونٹ پانچ سال کا ، گائے دو سال کی ،بکرا (اس میں بکری ،دُنبہ ،دُنبی اوربھیڑ(نرو مادہ) دونوں شامل ہیں) ایک سال کا ۔ اس سے کم عمر ہوتو قربانی جائز نہیں ، زیادہ ہوتو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں دُنبہ یا بھیڑ کا چھ مہینے کا بچّہ اگر اتنا بڑا ہوکہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے۔([6])
یادرکھئے!مُطلَقاًچھ ماہ کے دُنبے کی قربانی جائز نہیں، اس کا اِتنا فَربَہ(یعنی تگڑا) اور قد آور ہونا ضروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے۔اگر 6ماہ بلکہ سا ل میں ایک دن بھی کم عمر کا دُنبہ یا بھیڑ کا بچّہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔
(12)قربانی کا جانورخریدنےکےلئے اپنے ساتھ کسی ایسے تجربہ کار شخص کو لے کر جائیں جو جانور کی عمرجانچنے،اس کا عیب وغیرہ دیکھنے میں ماہر ہو،امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کو کئی بار دیکھا گیا ہے کہ آپ جانوروں کے حوالے سے گوشت فروشوں سے بہت زیادہ معلومات لیتے ہیں ۔
(13)جانور کے مختلف اعضاء کو کھانے کے بارے میں مختلف احکام ہیں کہ جانور کے کونسے اعضاء حلال ،کونسے حرام اور کونسے مکروہ ہیں ،اور مکروہ میں کونسا حصہ تنزیہی اور کونسا تحریمی ہے، اس بارے میں دارالافتاء اہلسنت سے راہنمائی لیجئے۔
(14)اگر کوئی قصاب کے ساتھ صرف چھری پر ہاتھ رکھے کہ میں بھی جانور ذبح کرنے میں شامل ہوجاؤں گا تو دونوں پر تکبیر پڑھنا واجب ہے ،اگر ایک نے بھی جان بوجھ کر چھوڑ دی یا یہ خیال کرتے ہوئے کہ دوسرے نے پڑھ لی ہوگی مجھے کہنے کی کیاضرورت تودونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوگا۔
(15)بعض لوگ جانور کو گرانے کے بعد اسے گھسیٹ کر قبلہ رخ کرتے ہیں ،تو ایسی صورت میں جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہمیں قربانی کے جانور کے لئے کئی احکام دئیے ہیں ہمیں ان کو مدِ نظر رکھنا چاہئے۔
(16)قربانی کے جانور پر چھری پھیرتے وقت اپنے رب کی بارگاہ میں یوں عرض کیجئے کہ یااللہ پاک جس طرح میں نے تیرے حکم پرآج جانور قربان کیا اگر وقت آیا تو میں تیرے دین کی خاطر اپنی جان بھی قربان کروں گا۔
(17)قربانی کے فضائل،مسائل اور اس بارے میں مفید معلومات پڑھنے کےلئےامیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا رسالہ ”ابلق گھوڑے سوار“ کا مطالعہ نہایت فائدہ مند ثابت ہوگا ۔
Comments