اولیائے کرام رحمہم اللہ السلام،علمائے اسلام رحمہم اللہ السلام

اپنےبزرگو ں کو یادرکھئے

*مولانا ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

ذُوالقعدۃِ الحرام اسلامی سال کا گیارھواں  مہینا ہے۔ اس میں جن اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وصال یا عرس ہے، ان میں سے 119 کا مختصر ذکر ماہنامہ فیضانِ مدینہ ذُوالقعدۃِ الحرام 1438ھ تا1445ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے، مزید12کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:

اولیائے کرام رحمہمُ اللہ السَّلام:

(1)افضل الدین حضرت میر سیّد ابوجعفرامیرماہ بہرائچی  رحمۃُ اللہِ علیہ  خاندانِ سادات کے چشم و چراغ، مرید و خلیفہ شیخ سیّد علاؤالدین جے پوری سہروردی، عالمِ دین، مقتدائے وقت، مصنفِ کُتب اور بہرائچ، یوپی ہند کے مشہور ولیُّ اللہ ہیں۔ آپ کا وصال 772ھ میں ہوا، بہرائچ میں مزار مشہور ہے، آپ کا عرس 29 ذُوالقعدہ کوہوتاہے۔ ([1])

(2)حضرت پیر سیّد حمید بخاری بیجاپوری  رحمۃُ اللہِ علیہ  مشاہیر ساداتِ کرام اور فضلائے عظام سے تھے، سلسلہ سہروردیہ میں خلافت حاصل تھی، وصال 15ذُوالقعدہ 1018ھ کو ہوا، مزار بیجاپور، ریاست کرناٹک، ہند میں ہے، پیر سید اشرف بخاری آپ کے سجادہ نشین تھے جو محقق عالم اور ولیُّ اللہ تھے۔ ([2])

(3)مستفتیِ اعلیٰ حضرت، ولیِ کامل، علّامہ محمد عبد اللہ پگلینوی المعروف پہاڑ والے مولوی صاحب  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش پگلین شریف نزد عبداللہ پور (سابقہ نام ہری پور) یونین کونسل کھمباہ (Khambah) تحصیل سماہنی ضلع بھمبر کشمیر کے گجر خاندان میں ہوئی، آپ علمائے کشمیر و پنجاب و ہند کے شاگرد، مرید خواجہ پیر سیّد غلام حیدرعلی شاہ (جلالپور شریف، تحصیل پنڈ دادنخان ضلع جہلم)، ولیِّ کامل، استاذُ العلماء اور فارسی و پنجابی کے شاعر تھے۔ آپ کا وصال 28 ذُوالقعدہ 1345ھ کو ہوا، مزار مبارک جائے پیدائش میں ہے، مشہور ہے کہ آپ کے مزار پر شیر حاضری کے لئے آتا تھا۔([3])

علمائے اسلام رحمہمُ اللہ السَّلام:

(4)امامُ الحدیث قاری و حافظ شیخ عبداللہ بن محمد مسندی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش 112ھ کو بخارا،اوزبکستان میں ہوئی  اور 23یا 24 ذُوالقعدہ 229ھ کو وصال فرمایا۔ آپ حضرت سفیان بن عیینہ جیسے اساتذہ کے شاگرد تھے، علم حدیث کی شاخ مسند سے دلچسپی کی وجہ سے مسندی کہلائے، آپ کے شاگردوں میں اہم نام امام محمد بن اسماعیل بخاری کا ہے۔([4])

(5)شیخُ الاسلام، مسند الآفاق، حضرت شیخ امام ابو الوقت عبد الاول بن عیسیٰ سجزی ہروی  رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 458ھ کو ہرات میں ہوئی، آپ امام وقت، محدث کبیر، کثیرالتلامذہ، صوفی کامل، حسن اخلاق کے پیکر، متقی و متواضع، راتوں کو عبادت و گریہ و زاری کرنے والے اور علم و عمل کے جامع تھے۔ آپ کا وصال 6ذُوالقعدہ 553ھ کو بغداد میں ہوا، نمازِ جنازہ غوثُ الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے پڑھائی۔([5])

(6)حضرت شیخ ابو عمر قاسم بن جعفر ہاشمی عباسی بصری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت رجب 322ھ اور وصال 29  ذُوالقعدہ 414ھ میں ہوا۔ آپ امام، فقیہ، امین و ثقہ راوی حدیث، مسند العراق اور بصرہ کے قاضی تھے۔([6])

(7)حضرت امام ابو محمد عبد اللہ بن محمد طائی اندلسی قرطبی  رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت رمضان 603 ھ کو ہوئی اور وصال 11 ذُوالقعدہ 702ھ میں فرمایا۔ آپ محدث و مسند، عالم و ادیب، صدوق و حسن الحديث، علم و عمل کے جامع اور فقیہ مالکی تھے۔([7])

(8)عالم کبیر، مفسر قراٰن، مسند العصر حضرت مولانا یعقوب بن حسن صرفی کشمیری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 908ھ کو کشمیر میں ہوئی۔ آپ ذہین و فطین، حافظِ قراٰن، جامع معقول و منقول، امام اِبنِ حجر ہیتمی وغیرہ کے شاگرد، سلسلہ کبرویہ کے شیخِ طریقت، مصنفِ کُتب، فیاض و سخی، عوام و خواص میں مقبول اور صوفی شاعر تھے، آپ نے 12 ذُوالقعدہ 1003ھ کو وصال فرمایا۔([8])

(9)شیخُ الاسلام و المسلمین، حضرت علّامہ شمس الدین محمد محبی مصری حنفی  رحمۃُ اللہِ علیہ  قراٰن و حدیث، لغت و ادب عربی اور فقہ وغیرہ علوم و فنون میں کامل دسترس رکھتے تھے، مصر کے مشاہیر علمائے اہلِ سنّت آپ کے شاگرد ہیں، زندگی بھر درس و تدریس میں مصروف رہے، آپ کا وصال 20 ذُوالقعدہ 1041ھ کو مصر میں ہوا، تدفین تربت المجاورین، قاہرہ مصر میں کی گئی۔([9])

(10)حسان الہند علّامہ میر سیّد غلام علی آزاد چشتی بلگرامی  رحمۃُ اللہِ علیہ  بارھویں صدی ہجری کے عظیم مؤرخ، محدث، عالم، ہندی و عربی کے شاعر، صوفیِ باصفا اور سلسلہ چشتیہ سے منسلک ہیں۔ آپ کی پیدائش 25صفر1116ھ کو بلگرام ضلع دوئی یوپی ہند میں ہوئی۔ تصانیف میں سبحۃالمرجان فی آثارِ ہندوستان، مآثرالکرام، شمامۃالعنبر اور روضۃالاولیاء مطبوع و مشہور ہیں۔ آپ کا وصال 21ذُوالقعدہ 1200ھ کو خلد آباد، ضلع اورنگ آباد، ریاست مہاراشٹر، ہند میں ہوا، تربت یہیں ہے۔([10])

(11)علّامۂ زماں فضل امام خیرآبادی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت خیرآباد میں ہوئی، آپ جید علمائے کرام سے علم حاصل کرکے جامع معقول ومنقول اور ماہر مدرس درس نظامی بنے، دہلی میں مفتی پھر صدر الصدور کے عہدے پر فائز ہوئے، درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا، آپ کے شاگردوں کی تعداد کثیر ہے، میر زاہد اور ملا جلال پر تفصیلی حواشی ہیں، 5ذوالقعدہ 1244ھ کو وصال فرمایا، احاطۂ درگاہ سعدالدین خیرآبادی میں تدفین ہوئی۔([11])

(12)استاذُالعلماء علّامہ احمدالدین چکوالوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  موضع بولہ ضلع چکوال کے ایک علمی گھرانے میں 1268ھ کو پیدا ہوئے۔ والدِگرامی علّامہ غلام حسین چکوالوی سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کی،مکہ مکرمہ میں علامہ سیداحمد بن زینی دحلان مکی سے اجازات حاصل کیں،بیعت وخلافت خواجہ شمس العارفین سیالوی سے تھی۔  آپ حکیمِ حاذق، مضبوط حافظِ قراٰن ،جیّدعالم دین اوراستاذُالعلماء تھے، کچھ عرصہ  کراچی پھر جالی والی مسجد چکوال میں تدریس کرتے رہے، آپ کا وصال 28ذُوالقعدہ 1347ھ کو ہوا۔([12])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ(دعوتِ اسلامی)



([1])میر سید امیرماہ بہرائچی، ص7، 8، 16، 20

([2])تذکرۃ الانساب،ص245

([3])معارف رضا، سالنامہ 2008ء، ص203تا208- فتاویٰ رضویہ، 10/297- ثبت شیخ محمد عبد اللہ عتیق، ص3

([4])سیر اعلام النبلاء، 9/291

([5])سیر اعلام النبلاء،15/96تا100-المنتظم فی تاریخ الملوک والامم،18/127

([6])تاريخ بغداد، 12/446- سیر اعلام النبلاء،13/137

([7])الوافی بالوفيات، 17/316-الدرر الکامنہ، 2/303-بغیۃ الوعاۃ، 2/60

([8])تذکرہ علمائے ہند، ص551-منتخب التواریخ مترجم، ص465- نزہۃ الخواطر، 5/473- فقہائے ہند، 4/496

([9])خلاصۃ الاثر،4/301

([10])روضۃ الاولیاء مترجم،ص6تا10

([11])تذکرہ علمائے ہند، ص 331، 376، 377

([12])تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال،ص 16تا18


Share