بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکانا

شرح حدیث رسول

بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکانا

(Inciting the wife against her husband)

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2025

 سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ اِمْرَأۃً عَلی زَوْجِہَا اَوْعَبْدًا عَلٰی سَیِّدِہٖ ترجمہ :وہ ہم سے نہیں جو عورت کو اس کے خاوند یاکسی غلام کو اس کے آقا کے خلاف بھڑکائے۔ ([1])

”وہ ہم میں سے نہیں“کا مطلب:

حضرت علامہ بدرالدین عینی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے بیان کیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہماری سیرت پر عمل پیرا نہیں،ہماری دی ہوئی ہدایت پرگامزن نہیں اور ہمارے اخلاق سے آراستہ نہیں۔([2]) نیز حضرت الحاج مفتی احمد یار خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس طرح کی احادیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہماری جماعت سے یا ہمارے طریقہ والوں سے یا ہمارے پیاروں سے نہیں یا ہم اس سے بیزار ہیں وہ ہمارے مقبول لوگوں میں سے نہیں،یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری اُمت یا ہماری ملت سے نہیں کیونکہ گناہ سے انسان کافر نہیں ہوتا۔([3])

اس بصیرت افروز فرمانِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میں کسی کی ازدواجی زندگی (Marital life)میں زہر گھولنے والوں سے ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے۔

میاں بیوی کا پاکیزہ رشتہ:

اللہ کریم کی عطا کردہ خوبصورت نعمتوں میں سے ایک نکاح بھی ہے جس کے ذریعے نہ صرف مرد و عورت ایک پاکیزہ رشتے میں جڑ جاتے ہیں بلکہ دوخاندان بھی ایک دوسرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔خوشگوار ازدواجی زندگی انسان کو فرحت اور سکون مہیا کرتی ہے۔اگر میاں بیوی کے تعلقات میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجائیں توصرف یہ دونوں متأثر نہیں ہوتے بلکہ گھر والوں کا بھی سکون برباد ہوجاتا ہے۔بچوں کی ذہنی نشوونما متأثر ہوتی ہے۔سسرالی رشتہ داروں میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔مختلف نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں جیسے احساسِ تنہائی، عدمِ تحفظ۔بات بڑھنے پر بیوی رُوٹھ کر میکے چلی جاتی ہے،بعض اوقات گھریلو جھگڑے میں طلاق اور قتل تک نوبت جاپہنچتی ہے، آئے دن اس قسم کی خبریں ملتی ہیں کہ بیوی کو منانے میں ناکامی پر طیش میں آکر مرد نے بیوی اور اس کےماں باپ یا بہن وغیرہ کو فائرنگ کرکے مار ڈالا۔ دارالافتاء اور کورٹ کچہری میں طلاق کے کیسز کی تعداد آئے روز بڑھتی ہی جارہی ہے۔

میاں بیوی کے تعلقات بگڑنے کے اسباب دو طرح کے ہوتے ہیں: (1) آپسی اور (2) بیرونی۔

آپس کی وجوہات:

ان میں سے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا،غلطی کوتاہی سے درگزر نہ کرنا،ایک دوسرے کو اس کے مقام کے مطابق عزت نہ دینا،مارنا پیٹنا، ہر وقت اپنی بات منوانے کی ضد کرنا شامل ہے۔ صدرُالشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:آج کل عام شکایت ہے کہ زَن و شَو (میاں بیوی) میں نااتفاقی ہے۔ مرد کو عورت کی شکایت ہے تو عورت کو مرد کی، ہر ایک دوسرے کے لیے بَلائے جان ہے اور جب اتفاق نہ ہو تو زندگی تَلخ اور نتائج نہایت خراب۔ آپس کی نااتفاقی علاوہ دنیا کی خرابی کے دِین بھی برباد کرنے والی ہوتی ہے اور اس نااتفاقی کا اثرِ بد اِنھیں تک محدود نہیں رہتا بلکہ اولاد پر بھی اثر پڑتا ہے اولاد کے دل میں نہ باپ کا ادب رہتا ہے نہ ماں کی عزت اس نااتفاقی کا بڑا سبب یہ ہے کہ طرفین میں ہر ایک دوسرے کے حُقوق کا لحاظ نہیں رکھتے اور باہم رواداری سے کام نہیں لیتے،مرد چاہتا ہے کہ عورت کو باندی (کنیز) سے بدتر کرکے رکھے اور عورت چاہتی ہے کہ مرد میرا غلام رہے جو میں چاہوں وہ ہو، چاہے کچھ ہوجائے مگر بات میں فرق نہ آئے جب ایسے خیالاتِ فاسِدہ طَرَفَین میں پیدا ہوں گے تو کیونکر نِبھ سکے۔ دن رات کی لڑائی اور ہر ایک کے اَخلاق و عادات میں بُرائی اور گھر کی بربادی اسی کا نتیجہ ہے۔([4])

اس کا حل یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی حیثیت اور مقام کو تسلیم کریں،ایک دوسرے کی پسند ناپسند کا خیال رکھیں، خلاف مزاج بات ہوجانے پر برداشت کا حوصلہ رکھیں، کسی بات کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ شوہر کے لئے حدیث میں فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورَتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔([5])لہٰذا شوہر کو چاہئے کہ بیوی سے حسنِ سلوک کرے، اس کی جائز فرمائشیں پوری کرسکتا ہو تو کردے ہر مطالبہ رد نہ کردیا کرے اس سے اس کی اپنی ہی ویلیو گرے گی، بیوی غلطی کرے تو حکمت عملی اور نرمی سے سمجھائے نہ کہ چھوٹی سی بات پر ڈانٹ ڈپٹ اور مارپٹائی پر اُتر آئے کہ اس طرح ضِد پیدا ہو جاتی ہے اور سلجھی ہوئی بات اُلجھ جاتی ہے۔ بیوی کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے شوہرکی عزت کا خیال رکھے، شکوہ شکایت سے بچے، شوہر کے احسانات پر اس کا شکریہ ادا کرے،اس کی فرمانبرداری کر کے اسے راضی رکھے۔ رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ جنَّت نشان ہے:جو عورت اِس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنَّت میں داخِل ہو گی۔([6])

تعلقات بگڑنے کی بیرونی وجوہات:

میاں بیوی کی ہنستی مسکراتی زندگی میں تلخیاں پیدا کرنے میں دوسروں کی غیرضروری اور منفی مداخلت بھی کردار ادا کرتی ہے۔کبھی تیسرا شخص میاں بیوی کو ایک دوسرے کے خلاف ورغلاتا ہے۔ شروع کی حدیث میں ایسے ہی شخص کی مذمت بیان کی گئی ہے جو بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں۔ مفتی احمد یار خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :خاوند بیوی میں فساد ڈالنے کی بہت صورتیں ہیں: عورت سے خاوند کی برائیاں بیان کرے دوسرے مردوں کی خوبیاں ظاہر کرے کیونکہ عورت کا دل کچی شیشی کی طرح کمزور ہوتا ہے۔([7])

 بھڑکانے والےلوگ:

 بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکانے میں جانےانجانےمیں مرکزی کردار ادا کرنے والے مختلف لوگ ہوسکتے ہیں جیسے عورت کے قریبی رشتہ دار، اس کی سہیلیاں، پڑوسنیں، شوہر کے رشتہ داراور وہ لوگ جن کے ہاں اس شخص یاعورت کی شادی کا چانس تھا لیکن رشتہ سے انکار کردیا گیا۔یہ لوگ اپنے مقاصد کے لئے بھڑکانے اور پھوٹ ڈلوانےکےلئےمختلف طریقے اختیار کرتےہیں، مثلاً

(1)بیوی کو شوہر کے خلاف شک و شبہ میں مبتلا کرناکہ وہ کسی اور کے چکر میں ہے یا اپنی کمائی کہیں اور اُڑا دیتا ہے تمہارے لئے اس کی جیب سے رقم نہیں نکلتی۔

(2)اس کے دل میں شوہر کے لئے نفرت یا بیزاری پیدا کرنا کہ وہ تمہارا خیال نہیں رکھتا، تمہیں جیب خرچی تک نہیں دیتا،میرا شوہر تو مجھے پانچ ہزار گھر کے خرچ کے علاوہ جیب خرچی بھی دیتا ہے۔

(3)شوہر کی کسی غلطی کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کرنا تاکہ بیوی کا اس پر اعتماد ختم ہو جائےکہ دیکھا کیسے اس نے سب کے سامنے تمہیں جھاڑ پلا کر ذلیل کیا،اتنا غصہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟

(4) کچھ سہیلیاں ہمدردی جتانے کے لئے منفی مشورے دیتی ہیں، اس سے اتنا دب کر کیوں رہتی ہو، تمہیں آج تک اس بندے نے کونسا سکھ دیا ہے ؟

(5)طلاق یا علیحدگی کی ترغیب دینا کہ ایسے شخص سے جتنی جلدی جان چھڑا سکو چھڑا لو، آزادی کی زندگی گزارو، تم پڑھی لکھی ہو خود کما سکتی ہو تو ایسے شخص کی محتاج کیوں بنی ہوئی ہو ؟

(6)آج کل کئی سوشل میڈیا پیجز، وی لاگز،ڈراموں اور واٹس اپ گروپس میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں اور منفی اسٹوریز شیئر کی جاتی ہیں جو بیوی کا ذہن خراب کرسکتی ہیں۔

شیطان کا پسندیدہ کام:

میاں بیوی میں جدائی پیدا کرنا، شیطان کا سب سے محبوب مشغلہ ہے حضرت جابر  رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا :شیطان پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے، پھر لوگوں میں فتنہ پیدا کرنے کے لئے اپنے لشکر بھیجتا ہے۔ ان لشکروں میں ابلیس کے زیادہ قریب اس کا درجہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ باز ہوتا ہے۔ ایک لشکر واپس آکر بتاتا ہے کہ میں نے فلاں فتنہ برپا کیا تو شیطان کہتا ہے : تونے کچھ بھی نہیں کیا۔پھر ایک اور لشکر آتا ہے اور کہتا ہے :میں نے ایک آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی۔یہ سن کر ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے : تُوکتنا اچھا ہے! اور اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔([8])

شوہر کو چھوڑنے والی لالچی عورت کا انجام:

بنی اسرائیل میں ایک بہت عبادت گزار لکڑ ہارا (لکڑیاں بیچنے والا) تھا، اس کی بیوی بنی اسرائیل کی حسین و جمیل عورتوں میں سے تھی، جب اس ملک کے بادشاہ کو لکڑ ہارے کی بیوی کے حسن وجمال کی خبر ملی تو اس کے دل میں شیطانی خیال آیا، چنانچہ اس نے ایک بڑھیا کو اس لکڑہارے کی بیوی کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے ورغلائے اور لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ لکڑہارے کو چھوڑ کر شاہی محل میں اس کی ملکہ بن کر زندگی گزارے۔ وہ مکار بڑھیا لکڑہارے کی بیوی کے پاس گئی اور اس سے کہا:تُو کتنی عجیب عورت ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے جو نہایت ہی مفلس اور غریب ہے جو تجھے آسائش و آرام فراہم نہیں کرسکتا، اگر تُو چاہے تو بادشاہ کی ملکہ بن سکتی ہے۔ بادشاہ نے پیغام بھیجا ہے کہ اگر تُو لکڑہارے کو چھوڑ دے گی تو مَیں تجھے اس جھونپڑی سے نکال کر اپنے محل کی زینت بناؤں گا،تجھے ہیرے جو اہرات سے آراستہ وپیراستہ کرو ں گا، تیرے لئے ریشم اورعمدہ کپڑوں کا لباس ہوگا۔ جب اس عورت نے یہ باتیں سنیں تولالچ میں آگئی اور اس کی نظروں میں بلند و بالا محلات اور اس کی آسائشیں گھومنے لگیں۔ چنانچہ اس نے لکڑہارے سے بے رُخی اِختیار کرلی اور ہر وقت اس سے ناراض رہنے لگی،بالآخر لکڑہارے نے مجبوراً اس بے وفالالچی عورت کو طلاق دے دی۔ وہ خوشی خوشی بادشاہ کے پاس پہنچی اور اس سے شادی کر لی۔ جب بادشاہ اپنی نئی دلہن کے پاس حجلہ عروسی میں پہنچا تو اس کی بینائی جاتی رہی، ہاتھ خشک(یعنی بے کار)، زبان گونگی اور کان بہرے ہوگئے، عورت کا بھی یہی حال ہوا۔ جب یہ خبر اس دور کے نبی علیہ السّلام کو پہنچی اور انہوں نے اللہ  کی بارگاہ میں ان دونوں کے بارے میں عرض کی تو ارشاد ہوا :میں ہر گز ان دونوں کو معاف نہیں کرو ں گا، کیا انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ جو حرکت انہوں نے لکڑہارے کے ساتھ کی میں اس سے بے خبر ہوں؟([9])

میاں بیوی محتاط رہیں:

 میاں بیوی کو چاہئے کہ کسی کی باتوں میں نہ آئیں، گھر کا کوئی فرد ہویا باہر کا! جب بھی بیوی کے سامنے شوہر کی برائیاں یا شوہر کے سامنے بیوی کی برائیاں کرنے لگیں، انہیں چاہئے کہ اسے حکمتِ عملی سے روک دیں کیونکہ جس طرح غیبت کرنا گناہ ہے اسی طرح سننا بھی گناہ ہے۔ اسی طرح لگائی بجھائی کرنے والوں اور چغل خوروں سے بھی بچیں کہ یہ محبتوں کے چور ہوتے ہیں، ایسوں کو ہرگز اپنا ہمدرد نہ جانیں اور جس کے بارے میں آپ کو منفی (Negative)بات پہنچائی گئی اس پر بلاثبوتِ شرعی یقین نہ کریں اور اس کے بارے میں اپنے دل میں میل نہ لائیں۔

ہمیں چاہئے کہ ہم میاں بیوی میں صلح کرانے والے بنیں، نہ کہ اختلافات پیدا کرنے والے۔ اللہ ہمیں اس قبیح فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])ابوداؤد،2/369،حدیث:2175

([2])شرح ابی داؤد للعینی، 5/ 385،تحت الحدیث:1439

([3])مراٰۃ المناجیح،6 / 560

([4])بہارِ شریعت،ج2،ص100،99

([5])اِبن ماجہ، 2 / 478، حدیث:1978

([6])ترمذی،2/386،حدیث:1164

([7])مراٰ ۃ المناجیح،5/101

([8])مسلم، ص1158،حدیث:7106

([9])عیو ن الحکایات،ص122


Share