اسلام کا معاشی نِظام (قسط 02)

اسلام کا نظام

اسلام کا معاشی نظام(قسط:02)

*مولانا فرمان علی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

گذشتہ سے پیوستہ

صحابۂ کرام اور کسبِ معاش:

نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے تربیت و صحبت یافتہ صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  نبیِ پاک کی پیروی کرتے ہوئے اپنی ضرورت اور اہل وعیال کی کفالت کے لئے کسب و محنت کو ترجیح دیا کرتے اور طلب معاش کے لئے مختلف پیشے اختیار کرتے تھے۔خلیفۂ اوّل حضرتِ صِدِّیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  خلیفہ بننے سے پہلے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ ([1])خلیفۂ دُوُم حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  لوگوں سے اس بات پر مُزارَعَت کرتے (یعنی زمین بٹائی پر دیتے ) کہ اگر آپ اپنی طرف سے بیج لائیں تو آپ کے لئے نصف پیداوار ہوگی اور اگر وہ بیج لائیں تو ان کے لئے اتنی اتنی پیداوار ہوگی۔([2])خلیفۂ چَہارُم حضرت مولیٰ علی شیرِ خُدا  رضی اللہُ عنہ  اپنے گزر اوقات کے لئے اُجرت پر کام کیا کرتے تھے۔([3])حضرت عبدُالرّحمٰن بن عَوْف اور حضرت طلحہ بن عُبَیدُاللہ   رضی اللہُ عنہما  بَزّاز (یعنی کپڑے کے تاجر) تھے۔([4])حضرت ابو عبداللہ زبیر بن عوَّام  رضی اللہُ عنہ  آپ جزّار یعنی گوشت کا کام کرتے تھے۔([5]) حضرت عباس بن عبدُالمطلب   رضی اللہُ عنہما  عطر اور کپڑے کے تاجر تھے۔([6])حضرتِ سلمان فارسی  رضی اللہُ عنہ  مدائن کے گورنرتھے اور بیتُ المال سے آپ کو وظیفہ ملاکرتا تھا لیکن اس کے باوجود اپنے ہاتھ سےکمانے کو ترجیح دیتے اور کھجور کے پتّوں کی ٹوکریاں بناتے تھے، چنانچہ آپ  رضی اللہُ عنہ  خود فرماتے ہیں: میں اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانا پسند کرتاہوں۔([7])

معاشی نظام کی تباہی کے اسباب اسلام کی نظر میں:

آج ہمارے معاشی حالات کی بدحالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، معاشرے کا ہر فرد اسی وجہ سے بےسکونی اور پریشانی کا شکار ہے اور روزی میں بےبرکتی کا رونا روتا نظر آتا ہے، ہم غور کریں تو اس کی بنیادی وجہ رزق کمانے سے متعلق اسلامی تعلیمات سے ہماری رُوگردانی ہے۔ فی زمانہ تجارت و کاروبار میں اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جھوٹ، دھوکا، بددیانتی، ملاوٹ، سود اور نہ جانے کن کن حرام طریقوں کو اختیار کیا جارہا ہے جس سے ہماری معیشت تباہی کی طرف تیزی سے جارہی ہے۔ آئیے! کسب و تجارت میں پائی جانے والی چند برائیوں اور ان کے نقصانات ملاحظہ کیجئے:

سودخوری:

 اسلام کے اُصولِ تجارت میں سے ایک سود خوری سے بچنا ہے۔ یادرکھئے! تجارت کی بدحالی اور اس کی تباہی میں سود ایسی منحوس چیز ہے جو ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے،سودی کاروبار میں بظاہر مال بڑھتا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ یہ نہ صرف ہمارے ذاتی کاروباربلکہ ملکی معیشت کو بھی تباہ و برباد کردیتا ہے۔نبیِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس کی تائید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: سود اگرچہ (ظاہری طور پر) زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔ ([8])علّامہ عبدُ الرؤف مُناوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:سود کے ذریعے مال میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا ہےمگر سود لینے والے شخص پر (مال کی) تباہی و بربادی کے جو دروازے کھلتے ہیں ان کی وجہ سے وہ مال کم ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے۔([9])

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے سودی نظام کا رواج بڑھتا جارہا ہےاور لوگوں کو حیلے بہانوں سے قائل کرکے سود لینے دینے پر اکسایا جارہاہے، جب کوئی تنگدست،بدحال، بےروزگار شخص اپنی مالی پریشانی کسی سے بیان کرتا ہے تو سامنے والا اسے سود پر قرضہ لینے کا ذہن دیتا ہے یا بعض اوقات خود اس کا بھی ذہن بن جاتا ہے یادرکھئے! نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سود ی معاملات کرنے والے،لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔([10])

سود کی مذمت پر مزید معلومات کے لئے ”سود اور اس کا علاج“ نامی رسالے کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔

دھوکا دہی:

اسلام کے اُصولِ تجارت میں سے ایک دھوکا دہی سے بچنا ہے۔اس بارے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ عیب دار چیز خریدار کو بتائے بغیر تھمانے کے بجائے اس عیب کو خریدار کے سامنے بیان کرنا چاہئے۔اس کے علاوہ خالص چیز میں ملاوٹ کرنا،جھوٹی قسم کے ذریعے اپنی خراب چیز کی تعریف کرکے خریدار کو اعتماد دلانا،نیز ناپ تول میں ڈنڈی مارکر خیانت کرنا یہ سب دھوکا دہی کی صورتیں ہیں۔ یادرکھئے! دھوکا دہی سے نہ صرف خریدار کا اعتماد ٹوٹتا ہے، آپ کی قدر اس کی نگاہوں میں ختم ہوجاتی ہے بلکہ اس سے آپ کے کاروبارکو نقصان پہنچے گا۔ حدیثِ پاک میں ہے: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تاجر (دنیا کے) دونوں کونوں تک پہنچے گا لیکن اسے نفع حاصل نہیں ہوگا۔([11]) حضرت علامہ محمد بن عبد الرسول برزنجی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: یہ (تجارت میں نفع نہ ہونا) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ (قربِ قیامت) تاجروں میں دھوکا دہی اور جھوٹ کا غلبہ ہوگا جس کی وجہ سے ”تجارت“ میں برکت نہ ہوگی۔([12])ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: جو کسی مومن کو ضَرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکا بازی کرے وہ ملعون ہے۔([13])

زکوٰۃ نہ دینا:

معاشی تباہی کا ایک سبب سال پورا ہونے پر اپنے اموال کی زکوٰۃ نہ دینا بھی ہے۔زکوٰۃ اسلام کا ایک بنیادی رُکن اور اہم ترین مالی عبادت ہے۔یہ ایسا خوبصورت نظام ہے، جس کے ذریعے مُعاشرے کے نادار اور محتاج لوگوں کو مالی مدد ملتی ہے۔ اگر سارے مالدار لوگ درست طریقے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کریں توہمارے معاشرے سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے اور ہماری معیشت مضبوط و مستحکم ہوسکتی ہے۔مگر افسوس! ہمارے معاشرے کا مالدار طبقہ بخل کی وجہ سے اپنی دولت کو جمع رکھتاہے اور زکوٰۃ کی صورت میں مال کا واجبی حق بھی ادا نہیں کرتا،تودولت اپنی جگہ پر منجمد رہتی ہے، مستحقوں تک پہنچتی نہیں،اس طرح وہ اپنی اشیائے ضرورت نہیں خرید پاتے، جب مال کی چلت پھرت بند ہوجائے گی، غربت و مفلسی اور محتاجی بڑھ جائے گی،اس کا اثر ہماری معیشت پربھی پڑے گا اور ہمارا معاشی نظام تباہ و برباد ہوجائے گا۔نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس بارے میں ارشاد فرمایا: جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی، اللہ پاک اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔([14])ارشاد فرمایا: خشکی و تری میں جو مال تلف (یعنی ضائع )ہوتا ہے،وہ زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوتا ہے۔([15])

ذخیرہ اندوزی:

 معاشی تباہی کا ایک سبب اِحْتِکار یعنی ذخیرہ اندوزی بھی ہے احتکار کا لغوی معنیٰ ہے گرانی (مہنگائی)کے انتظار میں کسی بھی چیز کا ذخیرہ کرلینا۔ جبکہ شریعت کی اصطلاح میں وہ چیز جو انسانوں یا جانوروں کی بنیادی خوراک ہے اسے اس نیت سے روک کر رکھنا کہ جب اس کی قیمت زیادہ ہوگی تب بیچیں گے بشرطیکہ نہ بیچنے سے لوگوں کوضرر ہو اور وہ چیز شہر یا شہر کے قریب سے خریدی ہو، یہ اِحْتِکار کہلاتا ہے۔([16])

یاد رہے! تاجروں کی اس حرص کی وجہ سے مارکیٹ سے اناج وغیرہ کھانے پینے کی اشیاء نایاب ہوجاتی ہیں اورچیزوں کی قیمت خرید بڑھ جاتی ہے جس سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سے ہماری معیشت کو بھی کافی نقصان پہنچتا ہے نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس قسم کی ذخیرہ اندوزی کی مذمَّت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو مہنگائی بڑھانے کی نیت سے چالیس دن غلہ روکے تو وہ اللہ پاک سے دور ہوگیا اور اللہ پاک اس سے بیزار ہوگیا۔([17])حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: چالیس دن کا ذکر حدبندی کے لئے نہیں، تاکہ اس سے کم اِحتِکار جائز ہو، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو اِحتکار کا عادی ہوجائے اس کی یہ سزا ہے۔([18])

جو مسلمانوں پر ان کی روزی(غلہ)روکے ا پاک اسے کوڑھ اور مفلسی میں مارے۔([19])ان کی روزی فرمانے میں اشارۃً فرمایا کہ اِحتکار مطلقًا ممنوع ہے مگر مسلمانوں پر اِحتکار زیادہ بُرا کہ مسلمان کو تکلیف دینا دوسروں کو تکلیف دینے سے بَدتر ہے۔([20])

لہٰذا تاجروں کو اس بری صفت سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ اللہ رسول کی ناراضی، مسلمانوں کی بدخواہی کے ساتھ ساتھ مال میں بے برکتی اور معاشی تباہی کا بھی سبب ہے۔

رشوت:

معاشی حالات کی خرابی اور ہمارے اداروں کی بربادی کا ایک سبب رشوت خوری بھی ہے جس کی وجہ سے ہماری ملکی خزانوں کو خسارہ اور معیشت تباہ ہورہی ہے۔مثلاً اگر کسی شخص نے مارکیٹ یا اس کے قرب وجوار میں اپنی چھوٹی سی دکان شروع کرنی ہے تو اچھی جگہ کے انتخاب کےلئے پہلے وہاں کے عہدہ داران،مالکان وافسران کو پیسہ کھلانا پڑتا ہے، اس کے بعد مالکان کو کرایہ ادا کرنےکے ساتھ ساتھ ہفتہ وار یا ماہانہ افسران کا حصہ بھی مختص ہوتا ہے،اس کے علاوہ کہیں ملازمت کرنی ہوتو جعلی دستاویزات اور رشوت کے ذریعے کوئی بھی نا اہل شخص کسی عہدے پر فائز ہوسکتا ہے اور اہلیت رکھنے والا ملازمت کی تلا ش میں بے روزگار بیٹھا رہ جاتا ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی خلافِ قانون کام کرنا ہو یا کسی جرم کی پاداش میں کہیں پکڑے گئے تو پیسہ دے کر اپنی عزت بچائی جاسکتی ہے اور اپنا کام نکلوایا جاسکتا ہے۔الغرض کسی بھی مشکل کام کے لئے رشوت دینے اور لینےکا ذریعہ بہت عام ہے اگر کوئی رشوت نہ دے تو اس کو بڑی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھئے! جہاں معمولی دکان دار، ٹھیلے والے کو رشوت کے نام پر پیسہ دینا پڑے اور نہ دینے پر اس کا کاروبار ختم کردیا جائے اور وہ بے روزگار ہوکر بیٹھ جائے تو اس طرح معیشت کیسے ترقی کرے گی؟ اسی طرح کسی ادارے میں کوئی نااہل رشوت کھلا کر کسی عہدے پر بیٹھ جائے اور ادارے کے کام نہ کرپائے،استاد ہو کر پڑھانے کی صلاحیت نہ ہو،کسی کمپنی میں ہونے والے کام نہ کر پائے،انتظامی معاملات درست طریقے سے نہ چلا سکے اور کسی بھی ادارے یا کمپنی کا مالی نقصان ہی کرتا رہے تو اس کمپنی کو کیا فائدہ ہوگا؟اسی طرح قانونی اداروں میں بھی جب پیسہ لے کر مجرم کو چھوڑ دیا جائے گا تو ہمارے ملک میں جرائم کی تعداد بڑھتی جائے گی اور بےروزگاری عام ہوگی،ہمارے اداروں میں مال کی کرپشن کی وجہ سے ہماری معیشت میں خسارہ ہوگا۔

نبیِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے رشوت دینے والے اور لینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے اور دونوں کو جہنمی قرار دیا ہے۔([21])

ان امور کے علاوہ بھی مزید ایسے کام ہیں جو ہماری معیشت کی بربادی، رزق میں بے برکتی اور محتاجی کا سبب بنتے ہیں لہٰذا کسب و تجارت اور ملازمت میں ہمیشہ اسلامی اصولوں کی پاسداری کر کے رزق حلال کمانا چاہئے۔                                                                                                                                                                    بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])حدیقہ ندیہ،1/222

([2])بخاری، 2/87،حدیث:2327

([3])حدیقہ ندیہ،1/222

([4])المعارف لابن قتیبہ،ص575

([5])سیرتِ حلبیہ،1/396

([6])تاریخ ابن عساکر،8/313

([7])حلیۃ الاولیاء،1/258

([8])مستدرک،2/339،حدیث2309

([9])فیض القدیر،4/66،تحت الحدیث:4505

([10])مسلم، ص663، حدیث:4093

([11])معجمِ کبیر،9/297،حدیث: 9490

([12])الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص 112

([13])ترمذی،3/378، حدیث:1948

([14])معجم الاوسط، 3/275، حدیث: 4577

([15])الترغیب و الترہیب، 1/308، حدیث:16

([16])ماہنامہ فیضان مدینہ، ذو القعدۃ الحرام 1439ھ،ص33

([17])مشکاۃ المصابیح،1/536،حدیث: 2896

([18])مراٰۃ المناجیح، 4/290

([19])ابن ماجہ،3/14، حدیث:2155

([20])مراٰۃ المناجیح،4/290

([21])ابو داؤد، 3/420، حديث:3580-معجم اوسط،1/550، حديث: 2026


Share