خرگوش اور کچھوا

کلاس روم

خرگوش اور کچھوا

*مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

سالانہ امتحانات کے بعد چھٹیاں اور نتائج کے اعلانات کے بعد اسکول میں آج پہلا دن تھا، سبھی بچے خوشی خوشی آ رہے تھے، نئی کتابیں ملنے، نئے کلاس روم میں شفٹنگ سبھی کچھ بڑا انٹرسٹنگ لگ رہا تھا لیکن یہ سب خوشی تبھی تک تھی جب تک اسکول کا گیٹ نہیں آیا تھا، کیونکہ یہاں پہنچ کر دیکھا تو اسکول کا مین گیٹ ابھی تک بند تھا، اس سے پہلے کہ بچے چھٹی سمجھ کر واپسی کا رخ کرتے اسکول کے اسپیکر سے اعلان ہونے لگا تھا کہ سبھی بچے اسکول کے برابر میں بنے پلے گراؤنڈ میں جمع ہوتے جائیں، آج اسکول کا گیٹ دعائیہ اسمبلی کے وقت سے صرف پانچ منٹ پہلے ہی اوپن ہوگا۔ سبھی بچے حیرانی سے گراؤنڈ کی طرف جا رہے تھے جہاں کچھ تو کھیل کود میں مگن ہو چکے تھے کہ ویسے بھی انہوں نے کلاسز میں بیگ رکھنے کے بعد واپس آ کر یہی کرنا تھا جبکہ کچھ بچے آپس میں خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے تھے۔

آٹھ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے جب اعلان ہوا کہ اسکول کا گیٹ اوپن ہو رہا ہے سبھی بچے چار قطاریں بنا کر اسمبلی ہال میں آ جائیں، گراؤنڈ میں سر پی ٹی (Physical trainer) بھی موجود تھے جن کی راہنمائی میں سبھی بچے چار قطاریں بنا کر چل پڑے، اسکول کے گیٹ پر پہنچ کر سبھی بچے حیران ہو گئے جہاں ان کے سبھی اساتذہ ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں والی پلیٹیں ہاتھ میں پکڑے کھڑے تھے جیسے ہی بچے اسکول کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے سبھی اساتذہ ان پر پتیاں نچھاور کرنے لگے اور بچے ہنسی خوشی آگے بڑھنے لگے اور کچھ نے بآواز بلند اپنے استادوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ گیٹ سے اسمبلی ہال تک ریڈ کارپیٹ بھی بچھا ہوا تھا اور دیواروں پر کچھ رنگ برنگے پلے کارڈز بھی لگے ہوئے تھے ایک پر لکھا ہوا تھا ”طلبہ قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔“ بقیہ پر بھی طلبہ کے بارے میں ہی کچھ لکھا ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر تو طلبہ خود کو وی آئی پی گیسٹ سمجھ رہے تھے۔

جب سبھی بچے اسمبلی ہال میں اپنی اپنی کلاس کی قطاروں میں کھڑے ہو چکے توپرنسپل صاحب جو پہلے مائیک ہاتھ میں پکڑے کھڑے تھے، بولے: سبھی بچوں کو اَلسَّلامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللہ! عزیز طلبہ آپ کو میری اور سبھی اساتذہ کی طرف سے خوش آمدید! بہت بہت مبارک ہو کہ اپنے تعلیمی سفر میں یہاں تک آپ کامیابی کے ساتھ پہنچ چکے ہیں، اب آپ کا نیا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے تو ہم سبھی اساتذہ آپ سے کچھ گزارشات کرنا چاہتے ہیں، اتنا کہہ کر پرنسپل صاحب نے مائیک اپنی دہنی جانب کھڑے سر بلال کو پکڑا دیا۔

سلام کے بعد سربلال کہنے لگے: بچو! قیامت کے روز ایک شخص کو اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا، تو اللہ پاک اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ پاک اس سے دریافت فرمائے گا :”تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟“وہ عرض کرے گا کہ ”میں نے عِلْم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قراٰنِ کریم پڑھا۔‘‘اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ”تُو جھوٹا ہے تو نے علم اس لئے سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قراٰنِ کریم اس لئے پڑھا تا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔‘‘پھر اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تو پیارے بچو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس لئے علم حاصل کریں کہ اللہ و رسول کے فرمانبردار بندے بن جائیں، پڑھ لکھ کر کامیاب آدمی بن کر اپنے والدین، مسلمانوں اور وطن کے کام آ سکیں۔

سر بلال نے اپنی بات ختم کر کے مائیک پاس کھڑے سر عمیر کو پکڑا دیا، وہ کہنے لگے: بچو آپ کو پتا ہے کہ رکاب کسے کہتے ہیں؟ اکثر بچوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ چلیں سنیں: جیسے موٹر بائیک میں پاؤں رکھنے کے لئے پیڈل بنے ہوتے ہیں ایسے ہی گھوڑے پر بیٹھنے والے کے پاؤں رکھنے کے لئے جو پیڈل بنائے ہوتے ہیں انہیں رکاب کہتے ہیں۔ اب آپ کو پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا زاد بھائی یعنی کزن کی ایک عادت بتاتا ہوں، آپ اپنے استاد محترم کا بہت ادب و احترام کرتے تھے یہاں تک کہ جب استاد محترم گھوڑے پر سوار ہوتے تویہ ساتھ پیدل چلتے اوررکاب پکڑے رہتے۔ پیارے بچو آپ نے سنا ہی ہوگا باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ علم کے ساتھ ساتھ ادب بھی اپنانا ہے، ادب میں صرف اساتذہ ہی نہیں بلکہ جہاں علم حاصل کر رہے ہیں یعنی اسکول کا، اپنے ساتھیوں کا، جن سے علم ملتا ہے یعنی کتابوں وغیرہ ہر شے کا ادب کرنا اپنی عادت بنائیں اِن شآءَ اللہ ادب ہوگا تو علم سے دنیا و آخرت دونوں جگہ فائدہ پائیں گے۔

سر عمیر نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد مائیک اردو کے استاد سر محسن کو پکڑا دیا: بچو آپ نے خرگوش اور کچھوے کی دوڑ(Race) والی کہانی تو سن ہی رکھی ہوگی، پتا ہے اس میں خرگوش کون ہے اور کچھوا کون، خرگوش وہ بچے ہیں جو پڑھنے میں اچھے ہیں لیکن چھٹیاں کرتے ہیں، فضول کھیل کود میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں اور کچھوا وہ بچے ہیں جو اگرچہ پڑھنے میں زیادہ تیز نہیں ہیں لیکن اپنا وقت برباد نہیں کرتے، پابندی سے اسکول آتے ہیں، سارے اسباق پابندی سے روزانہ یاد کرتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ یہ بچے کمزور ہونے کے باوجود آگے نکل جاتے ہیں تو اس نئے تعلیمی سال میں آپ سب پکا ارادہ باندھیں کہ فضول چھٹیوں کے ساتھ ساتھ فضول ایکٹویٹیز میں وقت برباد کرنے کے بجائے اپنی منزل یعنی پڑھائی پر توجہ قائم رکھنی ہے، اِن شآءَ اللہ اس سے نہ صرف ہم اساتذہ بلکہ آپ کے والدین بھی خوش ہو جائیں گے اور پتا ہے ناں والدين راضی تو رب راضی، رب راضی تو سب راضی۔ چلیں اب سبھی بچے قطاروں میں ہی اپنی اپنی باری پر اپنی کلاسز کی طرف بڑھیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی


Share